‏عنوان ، خواتین بس ہوسٹس کو عزت دو۔ تحریر ۔ شاہ زیب

ہمارے چاروں اطراف اکثر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے مختلف ذرائع نقل و حمل استعمال ہوتے، نزدیکی سفر کے لئے رکی ٹیکسی وغیرہ اور لمبے سفر کے لئے کچھ احباب لوکل بسوں کو استعمال کرتے اور کچھ ڈائیو و بس استعمال کرتے۔
لمبے سفر میں خاص کے ڈائیوو یا ایسی بڑی بس سروسز میں دوران سفر کچھ ایسی چیزیں دیکھیں جس پر آج بات کرنا چاہوں گا۔ ڈائیوو بس میں سفر کریں تو بس میں بس ہوسٹس اکثر خواتین ہوتی ہیں اور محنت مشقت کر کے گھر چلا رہی ہوتی ہیں ،خواتین بس ہوسٹس کو شوق نہیں ہوتا یا تو گھر کا فرد کمانے والا نہیں ہوتا یہ لاچار غربت کی ستائی ہوئی دو وقت کی روٹی کی تلاش میں گھر سے نکلتی ہیں تاکہ بوڑھے ماں باپ یا چھوٹے بچوں کا پیٹ پال سکیں تاکہ گھر کو چلا سکیں اور مینے خود اکثر سفر کیا ہے عموما مردوں سے زیادہ خواتین بس ہوسٹس بسوں میں سروس مہیا کر رہی ہوتیں۔ فرداً فرداً ہر ایک کی سیٹ پر جاکر بوتل لیز اور کچھ کھانے کی اشیاء سرو کرتی۔اس کا بس کے اندر چکر کبھی آگے کبھی پیچھے لگتا رہتا اور اسی دوران کچھ کم ظرف لوگ اسی بس ہوسٹس کو گھٹیا انداز میں ہراساں کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے کبھی ٹانگیں پھیلاتے کبھی کچھ کبھی کچھ کبھی بہانے سے جان بوجھ کر بار بار پانی منگواتے۔ ڈرائیور کو بتائے بھی تو وہ کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں کی نوکری کا سوال۔ہوتا۔ اس مجبوری میں وہ سب سہہ رہی ہوتیں۔ کہ کہیں لگی لگائی نوکری ختم ہو تو گھر کے اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھایا جائے گا۔
اور اکثر دیکھا سٹاپ آتے ہی مائیک سے تمام لوگوں کو اپنی کانپتی آواز مخاطب کرتیں تو اوباش آوارہ قسم کے لوگ مزاق بناتے "روندیں کیو اے” اور ہنسنے لگ جاتے۔۔
پھر احساس ہوتا ہے ہم کس معاشرے کا حصہ ہے جہاں ایک بہن کسی کی بیٹی تک محفوظ نہیں آخر ہو کیا گیا ہے پھر سوچتا "مکافات عمل” انسان جیسا کرے گا ویسے بھرے گا۔
کیا کبھی سوچا ہم دوسروں کی بہنوں کو تنگ کرتے کوئی ہماری بہنوں بیٹیوں کو تنگ کرے تو ہم پر کیا گزرے گی کیا بحثیت قوم اتنے بے غیرت ہیں کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی ۔ہم اپنی بہن کو محدود رکھتے لیکن دوسروں کی بہنوں پر گندی نظریں،
دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ہم بڑے بے حس لوگ ہیں ہم تماشہ دیکھتے ہیں کوئی نہیں روکتا کہ بھائی وہ بھی کسی کی عزت ہے اپ ایسا کیو کرتے ہیں
میں یہی کہو گا اگر خود بدلنا ہے تو اجتماعی طور پر سب کو بدلنا ہوگا کوئی بھی بہن بیٹی ہے اس کی عزت کا تحفظ دینا ہمارا فرض ہے بس ہوسٹس بھی ہماری بہنیں ہیں ہمیں ان کی عزت کو مقدم رکھنا چاہیے جیسے ہم اپنی بہنوں کی عزت کو مقدم سمجھتے ہوئے کرتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یقین کریں بس ہوسٹس خواتین بھی فخر کریں گیں کہ ہمارے معاشرے میں انسانیت ابھی زندہ ہے اور یہی بس ہوسٹس خواتین کام کر کے اپنے اپ کو ایزی محسوس کریں گی کہ ہم محفوظ ہیں اس لیے پھر کہو گا اپنے اپ کو اور معاشرے کو بے راہ روی سے روکنا ہمارے اختیار میں ہے دیری کس بات کی کل سے کیو ابھی کیو نہیں ۔۔

آخر پر اتنا کہو گا خدارا ان بس ہوسٹس خواتین کی عزت کیا کریں بلاوجہ تنگ کرنے سے اجتناب کریں اگر اپ کسی دوسرے کے بہن بیٹی کی عزت کریں گیں تو کل کو کوئی دوسرا شخص اپ کی بہن بیٹی کی عزت کی حفاظت کرے گا ۔۔ شکریہ۔۔

‎@shahzeb___

Comments are closed.