مزید دیکھیں

مقبول

مقبوضہ کشمیر ،ماہ رمضان میں فیشن شو کا انعقاد

مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ میں...

ایکس’ پر ایک دن میں تیسرا بڑا سائبر حملہ، صارفین پریشان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک...

خود پر ایک نظر تحریر: سجاد حسین قمر

اپنی ایک ہفتے کی ہر ایک ایک مصروفیات کو اپنی ڈائری پر لکھیں۔ وہ منفی ہو یا مثبت، ایک ہفتے کے بعد ایک صفحے پر لائن لگا کر ایک طرف اپنی مثبت اور دوسری جانب اپنی منفی مصروفیات درج کریں۔ اب خود جائزہ لیں کہ کس مصروفیت سے آپ کشیدگی اور مایوسی کا شکار ہوئے اور کس سے آپ کو حوصلہ افزائی ملتی ہے یا آپ کا دن اچھا گزرتا ہے۔ اب جس کے اثرات مثبت ہیں اس پر توجہ بڑھا دیں جس کے اثرات منفی ہیں اس کو ترک کر دیں۔ ہم صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے سے پہلے تک لوگوں کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی برائیاں کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کے ساتھ برابر کے حصہ دار بنے ہوتے ہیں۔ ہم ہر آتے جاتے شخص کی راہ دیکھتے رہتے ہیں ہم کسی کی درگت بنانے کے چکر میں لگے رہتے چاہے وہ اپنے محلے کا کوئی شخص ہو یا کوئی نامی گرامی بندہ۔
ایسا کیوں ہے! کیا لوگ اخلاقیات کے بنیادی تقاضوں کو خود میں ڈھالنے سے عاری رہے ہیں یا جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں؟ ہم نے اپنے اسلاف کے دئیے ہوئے اسباق کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں ایک وجہ ہماری ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتی ہوئی اخلاقی قدریں ہیں۔ کسی بھی قوم کی اخلاقیات کو اس کے حکمران اور دیگر اکابرین رہنمائی کرتے ہیں مگر جہاں اعلیٰ عہدیدار چھوٹی سی بات پر کسی کا مذاق اڑانے کو کار ثواب سمجھتے ہوں وہاں ہم کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ عوام الناس پر ان کی ایسی باتیں اثر نہیں کرتی ہوں گی؟ جہاں آپ کے معتبرلوگ کسی کی شکل و صورت، کسی کے لباس کے مخصوص انداز، کسی کے بولنے اور یہاں تک کہ چلنے پھرنے کی بھی باقاعدہ نقلیں اتارتے ہوئے پائے جائیں تو سماج کی ذہنیت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہوگا اس کا مشاہدہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ معاشرے کے اخلاقی معیار کو بہتر بنانے کی بجائے سب اس کو مزید نیچے لے کر جا رہے ہیں یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے اثرات ایک لمبے عرصہ تک محسوس ہوتے رہیں گے۔ ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں کسی کا نام لے کر براہ راست تنقید کرنے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے اسلاف نے معاشرے میں نفرت اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کی حوصلہ شکنی کی اور معاشرے میں محبت اور باہمی رواداری کو فروغ دیا۔ آج ہمیں اردگرد نفرت کے کانٹوں کو چن کر وہاں پیار کے پھول برسانے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی رائے کے احترام کی ضرورت ہے۔ اپنے اخلاق کو اس سطح پر لے کر جائیں جہاں نفرت کی کوئی گنجائش نہ ہو، جہاں جھوٹ اور بددیانتی کی کوئی گنجائش صفر سے بھی نیچے کے درجے پر چلی جائے۔ اس بات کو نظرانداز کردیں کہ فلاں نے ایسا کیا بلکہ اس بات کی فکر کریں کہ اخلاقیات کو بہتر بنانے میں میرا کیا کردار ہوسکتا ہے۔

جگر مراد آبادی نے کیا خوبصورت انداز میں کوزے میں سمندر کو بند کردیا :

وہ ادائے دلبری ہو، کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ