۔

قلم جب جب اٹھے گا
سیاہی سچائی کی ہوگی
میں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کی تمام بہاریں دیکھی ہیں۔اللہ نے خوشیاں دی تو سنبھالی نہ گئیں تو دوسری طرف دکھوں کا ایک سمندر بھی برداشت کیا۔میرے کاندوں نے باپ کے جنازۓ کو اٹھایا ۔مگر دل اس قدر افسردہ اور خون کے آنسو نہیں رویا یوں سمجھے کہ آج صبح کے واقعہ کو دیکھنے کا موقع ملا تو خون کے آنسو بھی خشک ہوگئے۔میں نے آج تک اس قدر رونما ہوا واقعہ کو نہیں دیکھا۔کل حسب عادت گھر سےمانسہرہ پریس کلب جانے کے لئے ۹ بجے گھر سے نکلا اور گاڑی میں سوار ہوا مسافر چڑھتے گئے کیری ڈبہ میں چلنے والی قوالیوں نے ایک سحر باندھ دیا۔میں اسی میں غرق تھا کہ اچانک میری نظر سڑک پر بیھٹے اس بچہ پر پڑی جو گردن جھکائے دنیا و جہاں سے بے خبر تھا وہ شین باغ بفہ کی سڑک کے بیچو بیچ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا اور ٹریفک کا ہجوم،لوگوں کی چلنے کی آہٹ،گاڑیوں کا دھواں،سب سے بڑھ کر وہ ایک زندہ لاش کی مانند تھا اسے یہ تک نہیں پتہ تھا کہ اس کے کپڑے کہا ں کے کہاں جا رہے ہیں۔اس کی عمر۱۲سے ۱۳ سال تھی،چہرہ جھکا ہوا ہونے کے باوجوداس کی گوری رنگت کو ظاہر کر رہا تھا بال کلر میں رنگے ہوئے تھے اور گولڈن کلر صاف واضح ہورہا تھا۔

وہ ہیروئن کے نشے میں دھت تھا۔میں نے ہیروئن کے نشے میں دھت بہت سے نوجوان دیکھے ہیں جوکہ پکھل مانسہرہ کے مختلف ایریا میں پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کوئی نشے کی حالت میں کھڑے کا کھڑا رہے گا گھنٹوں، تو کوئی سر جھکائے سجدے کی حالت میں ساکن جسم کے ساتھ دکھائی دے گا،کسی کو اتنا ہوش تک نہیں ہوتا کہ وہ کچرے میں پڑا ہوا ہے اور مکھیاں اس کے گر د چکر لگا رہی ہیں اور وہ اس بدبو دار کچرے کو نرم بستر سمجھ کر سو رہا ہوتا ہے۔بات ہو رہی تھی اس بچہ کی اسے اس حالت میں دیکھ کر میری روح تک کانپ گئی وہ کس گھر کا ہوگا،کس کے گھر کا چراغ ہوگا،کس ماں باپ کا بیٹا ہوگا،کس بہن کا بھائی ہوگا یا پھر یتیم۔۔۔۔
کیری ڈبہ میں سوار تمام لوگوں نے استغفار کہا اور میری آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے رومال سے اس دنیا سے ایسے چھپایا جسے وہ میرا کوئی اپنا ہو اور اس کے لئے دل سے خون کے آنسوں جاری ہوگئے ہو۔اسی وقت میرے دل سے ایک بد دعا اس وقت کے حکمراں ضیاء الحق کے لئے نکلی کہ جس نے اس غلیظ وباء کو افغان روس وار میں پاکستان میں داخل کیا آج اس انسان کی اس حرکت کا خمیازہ میری نسل کے میری قوم کے نوجوان ہی نہیں بچے،بوڑھے،جوان مرد و عورت سب ہی بھگت رہے ہیں ہمارے ملک کے ہونہار،نونہال اور مستقبل کے چمکتے ستارے اس نشے میں لگ کر اپنی دنیا برباد کر رہے ہیں۔اس نشے کو پروموٹ کرنے والوں تمھاری نسلیں بھی اس میں مبتلا ہوں گی جب معلوم ہوگا کہ قبر کا حال مردہ جانے۔۔۔۔۔
اللہ پاک میرۓ پیارۓ پاکستان کے مستقبل ستاروں کو اس موذی نشے کی عادت سے چھٹکارا عطاء فرماۓ۔آمین
https://twitter.com/YST_007?s=09

Shares: