خون کو خون تصور کرنا ہوگا تحریر: سحر عارف

0
116

پاکستان میں قتل وغارت کی بیماری ایسے پھیل رہی ہے جیسے جنگل میں لگی آگ پھیلتی ہے۔ ہمارے ملک میں اب خون اتنا سستا ہوگیا ہے کہ ہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پہ اتر آتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہم مسلمان کس راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا تو دین کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

پھر بھی ہمارے ہی معاشرے میں یہ چیز عام ہوتی چلی جارہی ہے۔ اب تو یہ قتل وغارت کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ کہیں کوئی لوٹ مار کرتے ہوئے کسی کی جان لے لیتا ہے تو کوئی معمولی سے آپسی لڑائی جھگڑے کے دوران۔

اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات ہوتے ہیں جو منظر عام پر آتے ہیں اور جو منظر عام پر نہیں آتے وہ الگ سے ہوتے ہیں۔ اب یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگ جائیں تو یہ خبر ان کے گھروالوں کی غیرت کے خلاف سمجھی جاتی ہے اور پھر نتیجہ اگلے ہی روز سامنے اجاتا ہے جب ان دونوں کی لاشیں ملتی ہیں۔

نہیں نہیں یہ میں کوئی فلم یا کسی ڈرامے کا سین نہیں بتارہی یہ تو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا اصل روپ ہے جس سے ہم سب باخوبی واقف ہیں۔ پھر سلسلہ یہاں ہی نہیں رک جاتا اگر خوش قسمتی سے ایک دوسرے کو پسند کرنے والے دو لوگ اپنے گھروالوں سے بچ کر نکاح جیسے پاک رشتے میں منسلک بھی ہوجائیں تب بھی یہ بات ان کے باپ بھائیوں کو گوارہ نہیں گزرتی اور وہ ان کے لیے ناقابل قبول ہوجاتے ہیں۔

اور پھر ایک نا ایک دن وہ بھی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ انھوں نے ہماری عزت اچھالی ہے اور ہماری غیرت ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ ہم انھیں زندہ رہنے دیں۔ ہم مسلمان ہوتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں کہ اللّٰہ پاک نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے انتخاب کا حق خود دیا ہے۔ پھر کون سی غیرت؟ کہاں کی غیرت؟ یہاں تو خون اتنا سستا ہے کہ درندے چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد انہیں قتل کر دیتے ہیں۔

جہاں ہر سال ہزاروں بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں وہیں ان میں آدھ سے زائد جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیے جاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ ہمارے معاشرے میں اگر لڑکا کسی لڑکی کو شادی کی پیشکش کرے اور وہ انکار کردے تو اس کو بھی قتل کرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پھر یہ کوئی ایک آدھ بار نہیں بلکہ خواتین کی ایک کثیر تعداد اس سے متاثر ہوئی ہے۔ تو اس سب سے آپ کو باخوبی اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ یہاں خون کس حد تک سستا ہے۔

پر افسوس صد افسوس کے ایسے واقعات روز کے روز کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں آخر کیوں؟ کیوں طاقت ور خونیوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی نہیں کی جاتی؟ کیوں ان جانوروں کو ان کے جرم کی نسبت کم سزائیں دی جاتی ہیں؟

ہمارے ملک کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں صرف امیر کے خون کو ہی خون تصور کیا جاتا ہے اور اس کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا بھی جاتا ہے۔ پر اس کے برعکس ایک غریب کا خون بھی اس کی طرح غریب ہی ہوتا ہے جس کے بہنے اور ضائع ہونے سے شاید کسی کو فرق نہیں پڑتا۔

@SeharSulehri

Leave a reply