عید کے روز صبح فجر وقت ایک نوجواں حافظِ قرآن کو قصور میں اسکے باپ کے سامنے پولیس والا اسے کہتا ہے کہ میرے پاس آؤ مجھ سے تعلقات رکھو ورنہ میں تمہیں مار دونگا اور اس حافظِ قرآن کے انکار پر وہ اسکے باپ کے سامنے اسے گولی مار کر قتل کر دیتا ہے۔
زرا تصور کیجیے کہ اس باپ کا کیا حال ہوگا کہ جو خود صبح اپنے بیٹے کو فجر کی نماز کیلئے بیدار کر کے لے کے جا رہا ہوگا۔ لیکن اسے علم نہیں ہوگا کہ اس کا بیٹا یہ نماز نہیں پڑھ سکے گا۔
اس کی ماں کا کیا حال ہوگا کہ جس نے اس دفعہ اتنی چاہ سے اس کیلئے عید کے کپڑے تیار کیے ہونگے کہ اس دفعہ میرے لعل نے پہلی دفعہ تراویح میں قرآن مکمل سنایا ہے۔ وہ بلائیں لیتے لیتے نہیں تھکتی ہوگی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک بھیڑیا اس کے خوبرو لعل کو اپنی ناجائز خواہشوں کے مکمل نہ ہونے پر موت کی گھاٹی میں دھکیل دے گا۔

ہاں یہ الم تو بیٹوں والے والدین ہی جان سکتے ہیں۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ٹویٹر پر ٹرینڈ چلا #justiceFroSamiurRehman ہر ذی شعور نے اس میں بقدر حصہ ڈالا اور کافی دیر تک یہ ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔

میں بہت دیر تک بغور دیکھتا رہا کہ ابھی شاید کسی نام نہاد انسانیت کے دعویداروں کی ایک ٹویٹ ایک پیغام سامنے آئے گا۔ شاید اسلام آباد کے کسی کونے میں موم بتیاں جلائی جائیں گیں۔ شاید کہ کسی سوشل ایکٹیویسٹ کی کوئی ایکٹیویٹی نظر آئے گی۔ شاید کہ کسی نیوز چینل پر خبر چلے گی کہ یہ ٹرینڈ اتنی دیر ٹاپ ٹرینڈ رہا اور سوشل میڈیا صارفین نے اتنی دفعہ اس بات کا ذکر کیا۔
شاید کہ راجہ داہر پر چلنے والے ٹرینڈ کو اپنی سرخی کی زینت بنانے والی بی بی سی اس پر سٹوری چلائے گی اور اپنی روایت کے مطابق لکھے گی کہ فلاں صارف نے اپنے پیغام میں یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ شاید کہ وائس آف امریکہ اپنی سٹوری میں اس کا ذکر کرے گا۔ لیکن نہیں مجھے کہیں بھی ذکر نہیں ملا اس سمیع کے ناحق قتل کا۔
میں نے پھر سے پورے کیس کو دیکھا بغور دیکھا کہ شاید کہیں کوئی اور وجہ تو نہیں قتل کی لیکن پنجاب پولیس کی ملزم کو بروقت گرفتار کرنے کی خبر میرے سامنے سے گزری۔ اے ایس پی کی مقتول کے گھر تشریف لانے اور ملزم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی خبر میرے سامنے سے گزری۔ مجھے اس ناحق قتل کی کوئی اور وجہ بھی نہ ملی کہ کتے کے پلوں کے مرنے پر واویلہ کرنے والوں کو یہ خونِ ناحق کیوں نہیں نظر آیا؟؟؟
بہت سوچا جب مجھے کوئی وجہ نظر نہ آئی تو نجانے کیسے میں نے اس نام پر غور کیا کہ کیا نام تھا اس معصوم کا ہاں حافظ سمیع اور اس کے والد کا پتا چلا وہ بھی حافظِ قرآن عالمِ دین اور امام مسجد ہیں پھر مجھے اس مجرمانہ خاموشی کی سمجھ آئی کہ زرا زرا سی بات پر ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دینے والے ان نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ کیا ہے؟
ہاں اس خاموشی کی وجہ ہے اس معصوم کا حافظ قرآں ہونا۔۔۔
اس کے باپ کا عالمِ دین اور امام مسجد ہونا۔۔۔
ہاں یہ طبقات تو انسانیت کے ضمرے میں نہیں آتے نا۔۔۔
تو بس پھر میری سوچوں کا دھارا رک گیا اور میں ان انسانی ہمدردی کے کھوکھلے علمبرداروں کے دوہرے رویہ پر فقط ماتم کناں ہی ہو سکتا ہوں کہ ان کا گریباں نہیں پکڑ سکتا کہ ان کے گھروں کی فصیلیں بہت اونچی ہیں۔۔۔
میں ان کے گریباں کو نہیں پکڑ سکتا کہ ان کے علاقہ میں مجھ جیسے پیدل چلنے والے کو شاید گلی کی نکر پر چوکیدار ہی روک لے کہ معاف کرو ان گھروں میں صاحبان موجود نہیں ہیں وہ سب عید کی چھٹیاں منانے پر فضاء مقامات کو گئے ہوئے ہیں اور ویسے بھی انہوں نے رمضان میں ساری خیرات تقسیم کر دی ہے گھر میں کوئی موجود ہوا بھی تو تمہیں کچھ ملنا نہیں۔۔۔
آ جا کے میرے پاس ان کو جنجھوڑنے کیلئے ایک یہ سوشل میڈیا ہی میسر ہے سو میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا کہ شاید ان کے مردہ ضمیروں میں کوئی زندگی کی رمق جاگے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہی ہوگی لیکن میں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ آپ کہیں ان تک پہنچ سکتے یا ان تک میری آواز پہنچا سکتے تو ضرور پہنچانے کی کوشش کیجیے گا کہ خونِ ناحق کا سوال ہے۔۔۔
#باغیات








