اپنی بدحالی پر نوحہ کناں اور گھبرانے کی اجازت مانگتا ہوا خوشحال گڑھ تحریر: اعجازالحق عثمانی

اگر آپ خوشحال گڑھ کو نہیں جانتے تو "گھبرانا نہیں ہے” ۔کیونکہ اس کو تو وہ بھی نہیں جانتے جو یہاں سے ووٹ لیتے ہیں۔ اور اگر آپ خوشحال گڑھ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو "گھبرانا نہیں ہے” فیض کا یہ شعر آپکو سمجھا دے گا

یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے

اس تہذیبی دینا سے اگر آپ پتھر کے زمانے میں جانا چاہتے ہیں تو جناب پھر گھبرانا کس بات کا۔۔۔ خوشحال گڑھ حاضر ہے۔۔۔ جی ہاں! ضلع چکوال کی تحصیل لاوہ کا یہ گاؤں آج بھی پتھر کے زمانے کی شاید آخری نشانی ہے۔ "خوشحال گڑھ”کا نام سن کر ذہن میں لفظ خوشحالی یوں ناچتا ہے کہ جیسے "جب آئے گا عمران خان” پر کوئی دیوانہ ناچے۔مگر رکیو زرا! یہ خوشحال گڑھ وہ ہے،جہاں خوشحالی کہیں نظر ہی نہیں آتی ہے۔ چاہے آپ ہلال کمیٹی کو بھی بلا لیں۔ جہاں کی گلیاں ، اکلوتی پکی سڑک( جس کو اب پکی کہنا، پاکستانیوں کی پکی قسم کی مترادف ہے) اور گاؤں کی واحد ڈسپنسری گھبرائی ہوئی اس امید میں نظر آتی ہے کہ کوئی مسیحا آئے اور ہمیں بھی کہے کہ ” گھبرانا نہیں ہے”
10 ہزار سے زائد ووٹوں پر مشتمل یہ علاقہ یہاں کے واحد لڑکیوں کے سکول میں اپنی 10 بیٹیاں بھی نہیں پڑھا سکا۔ یہاں کبھی سائیکل تو کبھی شیر کا راج رہا۔ مگر یہاں کی واحد پکی سڑک پر اگر کبھی شیر چلنا چاہے تو ایک منٹ سے زائد نہ چل پائے گا اور سائیکل تو 10 سیکنڈز میں ہی پنکچر ہوجائے ۔ لیڈر شپ ،پانی، صحت ،اور تعلیم جیسی کئی اور سہولیات کے فقدان کو یہاں دیکھ کر لگتا ہے کہ لفظ فقدان نے اسی علاقے میں جنم لیا ہوگا۔
خوشحال گڑھ ضلع چکوال کی نہ صرف سوتیلی بلکہ وہ معصوم اور خاموش اولاد ہے جس نے آج تک حقوق نہ ملنے کا کبھی گلہ ہی نہیں کیا۔ کسی زمانے میں خوشحال گڑھ میں ٹیلیفون اور ٹیلیویژن اتنے ہی تھے، جتنی یہاں خوشحالی۔ مگر اب تو ہر نوجوان کے ہاتھوں میں ڈیجیٹل میڈیا ہے۔ بہت بڑی تعداد فیس بکی بھی ہے۔ مگر افسوس! یہاں کے نوجوان نے کبھی اپنے علاقے کے لیے فیس بک پر آواز نہیں اٹھائی۔ جب بھی پوسٹ کی اپنی برادری کے اس مقامی رہنما کےلیے جس کے لیے خوشحال گڑھ کی ترقی کبھی اہم ہی نہیں رہی ۔
اپنی بدحالی پر نوحہ کناں اور گھبرانے کی اجازت مانگتا ہوا "خوشحال گڑھ”

اگر آپ خوشحال گڑھ کو نہیں جانتے تو "گھبرانا نہیں ہے” ۔کیونکہ اس کو تو وہ بھی نہیں جانتے جو یہاں سے ووٹ لیتے ہیں۔ اور اگر آپ خوشحال گڑھ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو فیض کا یہ شعر آپکو سمجھا دے گا

یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
اس تہذیبی دینا سے اگر آپ پتھر کے زمانے میں جانا چاہتے ہیں تو جناب پھر گھبرانا کس بات کا۔۔۔ خوشحال گڑھ حاضر ہے۔۔۔ جی ہاں! ضلع چکوال کی تحصیل لاوہ کا یہ گاؤں آج بھی پتھر کے زمانے کی شاید آخری نشانی ہے۔ "خوشحال گڑھ” نام سن کر ذہن میں لفظ خوشحالی یوں ناچتا ہے کہ جیسے "جب آئے گا عمران خان” پر کوئی دیوانہ ناچے۔مگر رکیو زرا! یہ خوشحال گڑھ وہ ہے،جہاں خوشحالی کہیں نظر ہی نہیں آتی ہے۔ چاہے آپ ہلال کمیٹی کو بلا لیں۔ جہاں کی گلیاں ، اکلوتی پکی سڑک( جس کو اب پکی کہنا، پاکستانیوں کی پکی قسم کی مترادف ہے) اور گاؤں کی واحد ڈسپنسری گھبرائی ہوئی اس امید میں نظر آتی ہے کہ کوئی مسیحا آئے اور ہمیں بھی کہے کہ ” گھبرانا نہیں ہے”
10 ہزار سے زائد ووٹوں پر مشتمل یہ علاقہ یہاں کے واحد لڑکیوں کے سکول میں اپنی 10 بیٹیاں بھی نہیں پڑھا سکا۔ یہاں کبھی سائیکل ، کبھی شیر کا راج رہا۔ مگر اس واحد پکی سڑک پر اگر کبھی شیر چلنا چاہے تو ایک منٹ سے زائد نہیں چل پائے اور سائیکل تو 10 سیکنڈز میں ہی پنکچر ہوجائے۔ لیڈر شپ ،پانی، صحت ،اور تعلیم جیسی کئی اور سہولیات کے فقدان کو یہاں دیکھ کر لگتا ہے کہ لفظ فقدان نے اسی علاقے میں جنم لیا ہوگا۔
خوشحال گڑھ ضلع چکوال کی نہ صرف سوتیلی بلکہ وہ معصوم اور خاموش اولاد ہے جس نے آج تک حقوق نہ ملنے کا کبھی گلہ ہی نہیں کیا۔ کسی زمانے میں خوشحال گڑھ میں ٹیلیفون اور ٹیلیویژن اتنے ہی تھے، جتنی یہاں خوشحالی۔ مگر اب تو ہر نوجوان کے ہاتھوں میں ڈیجیٹل میڈیا ہے۔ بہت بڑی تعداد فیس بکی بھی ہے۔ مگر افسوس! یہاں نوجوان نے کبھی اپنے علاقے کے لیے فیس بک پر آواز نہیں اٹھائی۔ جب بھی پوسٹ کی اپنی برادری کے اس مقامی رہنما کےلیے جس کے لیے خوشحال گڑھ کی ترقی کبھی اہم ہی نہیں رہی ۔ اگر یہاں کا نوجوان اب بھی نہ جاگا تو پھر دینا سے 50 سال پیچھے اس خوشحال گڑھ میں ہماری نسلیں، پسماندگی کو دیکھ کر ہمیں ضرور کوسیں گی۔

@EjazulhaqUsmani

Comments are closed.