ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو صرف ناچ گانے کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن اس کے برعکس پاکستانی قانون میں متجنس افراد ایکٹ 2018 کی شمولیت کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔ یہ قانون جنوبی ایشیاء میں متجنس افراد کیلئے اٹھائے جانے والے ترقی پسند ترین قانون میں سے ایک ہے کیوں کہ یہ قانون جنسی شناخت کی بنیاد اور  تمہاری منشاء کے مطابق شناخت کو قبول کرنے اور اس سے متعلق اظہار کی آزادی دیتا ہے۔۔۔

یہ قانون بلاشبہ خواجہ سرا اکٹوسٹوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکیلوں، مذہبی رہنماؤں اور پارلیمنٹ کے اراکین کی محنتوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے متجنس افراد کی عزت اور وقار کیلئے اکٹھے ہوکر جدوجہد کی اور متجنس افراد کی اس حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی جو ان سے اس ظالم معاشرے نے چھین لی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پوری مسلم دنیا میں متجنس افراد بھی عام شہریوں کی طرح معاشرے کا ایک اہم حصہ تھے انہیں جنوبی ایشیاء میں خواجہ سراء اور ہیجڑا جبکہ ملائشیا اور انڈونیشیا میں "مت نئیا” کہا جاتا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خواجہ سرا روایتی ثقافتی تقریبات میں اہم کردار تھے۔ شادی اور جنم دن کی تقریبات سے لے کر صوفی اور ہندو مذہب کی رسومات تک نہ صرف خواجہ سراؤں کو قبول کیا جاتا تھا بلکہ یہ اپنے معاشرے کا ایک حصہ تھے اور انہیں نہ تو چھپایا جاتا تھا اور نہ ہی آبادی سے دور کیا جاتا تھا۔ لیکن انیسویں صدی نے اس سامراج کو ختم کرنے کی کوشش کی اور خواجہ سراؤں کو قابل احترام معاشرے سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔۔۔

پہلے کبھی جنس کی بنیاد پر اس قسم کی تقسیم کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی تھی لیکن اب اس دنیا میں جنوبی ایشیاء کے خواجہ سرا ایک واضح خطرہ قرار دیئے گئے۔ ہندوستانی تاریخ اور معاشرے میں ان کے مقام اور احترام کو کافی نقصان پہنچایا گیا اور سامراج کی نظر میں ان کا رہن سہن فحش بنا دیا گیا جہاں تک کہ خواجہ سرا شادی بیاہ کی تقریبات میں جنوبی ایشیاء کا سفر طے کرتے تھے اس کو بھی ان کے خلاف جرم بنا دیا گیا۔ 1871 کے قانون کرائم ایکٹ کے دوسرے حصے کے مطابق جنسی اعتبار سے مختلف گروہ یونک قرار دیئے گئے۔ اس قانون کے مطابق خواجہ سرا پیدائشی طور پر ہی مجرم ہوتے ہیں اس لیئے ان کی عوامی مقامات پر جانے کی بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ سامراج سمجھتا تھا کہ ان کے یہ قانون صدیوں سے قائم ثقافت اور خواجہ سراؤں کی حیثیت کو ختم کر دیں گے لیکن ابھی تک پاکستان میں جنسی طور پر متنوم معاشرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ سامراج کا یہ منصوبہ ناکام رہا اور اب پوری دنیا میں متجنس افراد سامراج کے ہاتھوں ختم ہونے والا مقام واپس حاصل کر رہے ہیں جس میں سب سے بنیادی چیز برابر شہری کا حق ہے۔۔۔

ترکی میں اب متجنس افراد الیکشن میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور ان کی اس آئینی آزادی کو اعلی عدالتوں نے بھی برقرار رکھا ہے۔ انڈونیشیا میں ایک متجنس عورت نے ایک سیٹ بھی جیتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران میں جنسی سرجری پر خصوصی رعایت دی گئی ہے جب کہ پاکستانی قانون بغیر کسی جسمانی یا ذہنی معائنے کے آپ کی مرضی کی شناخت قبول کرتا ہے لیکن ابھی مزید بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے ابھی بہت سے مسائل باقی ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔۔۔

2018 کا متجنس افراد ایکٹ اور 2021 میں بنائے گئے اس کے رولز تفصیل سے تمام شعبوں میں متجنس افراد کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں جیسا کہ تعلیم، صحت، جائیداد اور روزگار کی فراہمی وغیرہ۔ بدقسمتی سے اس طرح کے امتیازی سلوک روکنے کیلئے یہ ایکٹ مناسب طریقہ کار واضح نہیں کرتا اور دوسرا مسئلہ یہ کہ تعلیم اور صحت صوبائی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے اس لیئے اس ایکٹ پر عمل کیلئے صوبائی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی واضح امتیاز مخالف قانون موجود نہیں جس کے تحت لوگ سول یا فوج داری مقدمات کر سکیں۔ اسی وجہ سے متجنس کمیونٹی میں بہت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ تاریخی اور موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ متجنس افراد کو ریاستی اور غیر ریاستی افراد سے شدید خطرات لاحق ہیں خاص طور پر پولیس سے کیونکہ متجنس افراد ایکٹ کے مطابق خواجہ سرا کا بھیک مانگنا جرم ہے اور اب پولیس والوں کے پاس بھیک کو روکنے کیلئے خواجہ سراؤں کو تنگ کرنے کا بہانہ موجود ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی بھیک کو جرم قرار دے چکا ہے اور اب اس کو خواجہ سراؤں کے ساتھ جوڑنا سراسر غیر ضروری اور امتیازی سلوک ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ متجنس افراد کو بااختیار بنایا جائے جس کیلئے موجودہ حفاظتی قوانین کو صوبائی سطح پر بھی اپنا کر ان پر عمل کروانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ امتیازی سلوک کو جرم قرار دے کر اس پر سزا مقرر کرنا صرف متجنس افراد ہی نہیں بلکہ ملک میں موجود مذہبی اور نسلی اقلیتوں کیلئے بھی فائدہ مند ہوگا۔۔۔

سو سالا سامراجی دور نے متجنس افراد کے خلاف جو منفی سوچ پیدا کی ہے قانونی طور پر اس کو ختم کیا جائے۔۔۔ قانون کو کسی صورت ان تعصبات کو فروغ دینے کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے بلکہ متجنس افراد کی ثقافتی سرگرمیوں کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں بھیک اور آوارہ گردی جیسے قوانین کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ بلاشبہ پاکستانی قوانین متجنس افراد کو قبول کرنے کے حوالے سے ترقی پسند ترین قانون ہے لیکن پاکستانی ریاست کو متجنس افراد کیلئے محفوظ جگہ بنانے کیلئے ابھی بھی بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔۔۔

@PatrioticWsi

Shares: