بہت جلد ، جنوبی افریقہ میں خواتین کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہوگی ، بالکل اسی طرح جیسے مردوں کو بھی متعدد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔
باغی ٹی وی :بی بی سی کی خبر کے مطابق اس اقدام کی تجویز ملک کے محکمہ برائے امور داخلہ نے کی ہے ، جو شادی کے ایک نئے عمل کو بنانے اور شادی کو مزید جامع بنانے کی کوشش کر رہا ہے سب کے حقوق کی بات کرنے والے سماجی کارکنوں نے حکومت سے کہا کہ اس طرح کی شادیوں کو جائز قرار دیا جائے تاکہ معاشرے میں برابری اور پسند کو یقینی بنایا جا سکے کیونک قانون پہلے ہی ایک مرد کو ایک سے زائد شایوں کی اجازت دیتا ہے۔
اس ہفتے شائع ہونے والی پالیسی دستاویز جسے باضابطہ طور پر گرین پیپر کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت نے عوامی تبصرے کے لیے جاری کیا ہے کیونکہ اس چیز نے سنہ 1994 میں سفید فام اقلیت کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد شادی بیاہ کے قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کروانے پر زور دیا ہے۔ ان دستاویزات میں مسلمانوں، ہندوؤں، یہودیوں اور راستافیرین مذہب والوں کے شادی کے تصورات کو بھی قانونی حق دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے ’پولی اینڈری‘ یعنی ایک وقت میں ایک خاتون کو ایک سے زائد افراد کے ساتھ شادی کو جائز قرار دینے کی تجویز پر ملک میں موجود قدامت پسند حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے کو آیا ہے۔
پولی اینڈری کے مضمون پر مہارت رکھنے والے پروفیسر کولس ماچوکو کے لیے کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تجویز پر اعتراض کا مقصد عورت پر کنٹرول ختم ہونے کا ہے۔
ان کے مطابق افریقی معاشرے صیحح معنوں میں مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ایسی خواتین کے ساتھ کیا کریں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ جنوبی افریقہ کا آئین دنیا کا ایک لبرل ترین آئین ہے، جو ہم جنس پرستوں کی شادی کو جائز قرار دیتا ہے اور مردوں کے لیے زیادہ شادیوں کی بھی اجازت دیتا ہے۔
کاروباری شخصیت اور ٹی وی پروگرام کے میزبان موسیٰ مسیلیکو جن کی چار بیویاں ہیں بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو خواتین کے لیے زیادہ شادیوں کی اس تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ چیز افریقی ثقافت کو تباہ کر دے گی۔
ان لوگوں کے بچوں کا کیا بنے گا؟ وہ اپنی شناخت کے بارے میں کیسے جان سکیں گے۔ اب خواتین مرد کا کردار بھی ادا کر سکیں گی۔ یہ پہلے کسی نہیں سنا ہوگا۔ اب کیا خواتین لا بولا یعنی برائیڈ پرائس بھی ادا کریں گی۔ کیا مرد اس عورت کے خاندانی نام کو اپنے نام کے ساتھ لکھ سکیں گے؟
اگرچہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اس کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا ہے لیکن پارلیمنٹ میں نشستیں رکھنے والے مذہبی پیشواؤں کی طرف سے پولی اینڈری کو قانونی حیثیت دینے کی تجویز کی مذمت کی گئی ہے۔
حزب اختلاف کی افریقن کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (اے سی ڈی پی) کے رہنما ریورنڈ کینتھ میشو نے کہا ہے کہ یہ چیز معاشرے کو تباہ کر دے گی۔
ان کے مطابق پھر ایسا وقت بھی آئے گا کہ ایک مرد اپنی اہلیہ سے کہے گا کہ آپ مجھ سے زیادہ دوسرے مرد کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ اور یہ چیز دو مردوں کے درمیان تضاد پیدا کرے گی۔
اسلامی الجماع پارٹی کے رہنما گنیف ہینڈرکس کا کہنا ہے کہ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ معلوم کرنے کے لیے کہ والد کون ہے اس کے متعدد ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت پیش آئے گی۔