خیبر کراٹے سنٹر: نوجوانوں کو منشیات اور جرائم سے بچانے کا گہوارہ ہے، نذیر شینواری

اگر حکومت کھلاڑی کی مالی مدد کرے تو وہ پاکستان کے لیے اور بھی بہت سے تمغے لے کر آسکتے ہیں

لنڈی کوتل(باغی ٹی وی رپورٹ)خیبر کراٹے سنٹر، نوجوانوں کو منشیات اور جرائم سے بچانے کا گہوارہ ہے، نذیر شینواری

تفصیل کے مطابق لنڈی کوتل کے ایک بوسیدہ مکان سے شروع ہونے والا خیبر ایجوکیشن کراٹے سنٹر آج ایک ایسی مثال بن چکا ہے جس نے نہ صرف نوجوانوں کی زندگیوں کو بدل دیا بلکہ پورے علاقے کا چہرہ بدل دیا ہے۔

گزشتہ 34 سالوں سے یہ سنٹر نوجوانوں کو منشیات اور جرائم سے دور رکھنے اور انہیں ایک صحت مند اور مثبت زندگی گزارنے کی تربیت دے رہا ہے۔ سنٹر کے بانی، حیات نذیر شینواری کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد صرف کراٹے سکھانا نہیں تھا بلکہ نوجوانوں کو ایک ایسا راستہ دکھانا تھا جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔

سنٹر سے تربیت حاصل کرنے والے 20 ہزار سے زائد نوجوان آج کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ سنٹر کے اس کامیاب سفر نے ثابت کیا ہے کہ کھیلوں کے ذریعے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

خیبر ایجوکیشن کراٹے سنٹر کے بانی، حیات نذیر شنواری نے بتایا کہ یہ سنٹر پورے قبائلی علاقے میں کراٹے سکھانے والا پہلا سنٹر تھا۔ بہت سی مشکلات کے بعد یہ سنٹر کامیاب ہوا ہے۔ سنٹر سے تربیت حاصل کرنے والے بہت سے کھلاڑی بین الاقوامی مقابلے جیت چکے ہیں۔ حیات نذیر خود بھی ایک بار آل پاکستان کراٹے چیمپئن رہ چکے ہیں۔

نور اسلم شنواری، جو اس سنٹر سے ہی کراٹے سیکھا ہے نے ٹوکیو میں ہونے والے ایک بڑے کراٹے مقابلے میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ اس کی بہت اچھی کارکردگی کی وجہ سے اسے بین الاقوامی مقابلے میں جج بننے کا سرٹیفیکیٹ بھی ملا ہے۔ اب کوریا میں ایک اور بڑا کراٹے مقابلہ ہونے والا ہے جس میں ہماری ٹیم کو بھی بلایا گیا ہے۔ لیکن ہماری ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ کوریا جا سکیں۔

اس سنٹر سے تربیت حاصل کرنے والا ایک اور کھلاڑی، غنی شنواری، کوریا میں ہونے والے ایشیا کپ کا چیمپئن بن چکا ہے۔ اس سنٹر کے بہت سے کھلاڑیوں نے جاپان، کوریا، ملائشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں ہونے والے کراٹے مقابلے میں حصہ لیا ہے۔ یہ خیبر کے لیے بہت بڑی بات ہے۔

کچھ کھلاڑیوں کو کراٹے کرنے سے پہلے ہڈیوں کی بیماری ہوتی تھی۔ لیکن کراٹے کی ورزش کرنے سے وہ اب بہت اچھے ہو گئے ہیں۔

یہ کھلاڑی بہت خوش ہیں کہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا ہے لیکن انہیں افسوس ہے کہ پاکستانی حکومت ان کی مدد نہیں کر رہی ہے۔ اگر حکومت ان کی مدد کرے تو یہ کھلاڑی پاکستان کے لیے اور بھی بہت سے تمغے لے کر آسکتے ہیں۔

Leave a reply