"کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ”

نفیرقلم
محمد راحیل معاویہ
حضرت علی رض کا قول ہے کہ دولت،منصب اور اقتدار ملنے کے بعد لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے ملکی سیاست میں طویل جدوجہد کی۔ بلند و بانگ دعوے کیے۔ ملک میں خوشحالی،عدل و انصاف،مساوات اور تبدیلی کے منشور کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ پاکستان کو مدینہ طرزکی ریاست بنانے کا وعدہ کیا۔

1 کروڑ نوکری، پچاس لاکھ گھر اور ملک سے غربت و افلاس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کرتے رہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو قرار دیا اور احتساب کے بیانیہ کے ساتھ ملک سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کیں۔ ملک کے تمام مسائل کی دوسری وجہ سابق حکومتوں، ان کی پالیسیوں اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کو قرار دیتے رہے۔ خان صاحب نے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسئلے کا واحد حل نیا پاکستان بننے کو قرار دیا۔

نیا پاکستان بننے کے بعد 100 دنوں میں ملک کی سمت درست کرنے کا پلان بنایا اور اپنا 100 روزہ پلان کتابی شکل میں بانٹتے رہے۔ 200 افراد پر مشتمل ماہر معاشیات کی ٹیم بالکل تیار ہونے کی نوید سنائی اور پاکستانی قوم کو بتایا کہ بس اقتدار ملنے کی دیر ہے پھر آپکو ہر سمت بدلی ہوئی نظر آئے گی۔ کیونکہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔

پاکستانی عوام کو ہر مسئلہ کا حل خان صاحب کے تبدیلی کے نعرے میں پنہاں نظر آنے لگا۔ 2018 کے الیکشن میں عوام کے ووٹوں یا اپوزیشن کے الزام کے مطابق دھونس دھاندلی یا کسی بھی طرح خان صاحب اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنی حکومت بنالی۔ حکومت بنانے کے بعد وہی ہوا کہ خان صاحب بے نقاب ہونا شروع ہوگئے۔

100 دن گزر گئے تو لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا کیوں کہ لوگ خود ہی سمجھتے تھے کہ نیا پاکستان کوئی بجلی کا سوئچ آن کردینے سے نہیں بن جائے گا۔ اس لیے لوگوں نے ایک سال تک بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نا کی۔پھر یوں ہوا کہ خان صاحب کی حکومت کو پورے دو سال گزرگئے۔ ایک سنجیدہ طبقہ فکر کچھ غور و فکر کرنے پر آمادہ ہوا تو یہ معلوم ہوا کہ واقعی سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح 5 فیصد سے دوگنی ہوکر بھی کنٹرول نا ہوئی اور 12 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ڈالر نے بڑی اڑان بھری اور 160 روپے پر جا پہنچا تھا۔ پھر سوچا کہ شاید بیروزگار لوگوں کو روزگار دینے کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہونگے۔ کیونکہ خان صاحب نے کہا تھا نا کہ میں وسائل کی تقسیم منصفانہ کروں گا۔ توان لوگوں کا بوجھ بھی تو دوسروں پر پڑنا تھا نا ۔میرے کپتان نے 1 کروڑ نوکری دینی تھی’ لوگوں نے روزگار حاصل کرنے کے لیے باہر کے ملکوں سے بھی آجانا تھا اس لیے بڑے عالمی اور تاریخی کارنامے سرانجام دینے کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔

اس لیے مہنگائی ہوگئی تو کیا ہوا؟ روپے کی قدر گر گئی تو کوئی بات نہیں ملک سے بیروزگاری تو ختم ہوئی ۔ لیکن یہ کیا؟ جب بے روزگاری کی تعداد پر نظر پڑی تو ہوش قائم نا رہا’ کیونکہ 2018 میں 35 لاکھ لوگ بیروزگار تھے’ اور آج 2020 میں 1 کروڑ 17 لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔

مارے حیرت کے میں انگشت بداں ہوگیا’پھر خیال آیا شاید خان صاحب نے 1 کروڑ نوکری دینے کا نہیں بلکہ لینے کا وعدہ کیا ہوگا۔ ہم ہی محرم کو مجرم پڑھتے رہے۔ ملک میں لوگوں کو خط غربت کی لکیر سے اوپر لانے کی خان صاحب کو بہت فکر تھی۔ وہ اپنے ہر جلسہ میں غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد گن کر بتایا کرتے تھے۔

ان کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کی خان صاحب کوسب سے زیادہ فکر تھی۔ اس لیے اور کسی طرف توجہ نہیں کرپائے ہونگے۔ کرتے بھی کیسے جب تک میرے ملک میں 1 بھی غریب باقی رہتا خان صاحب کسی اور فکر میں کیسے مبتلا ہوسکتے تھے۔ لیکن جب ان کے اعداد و شمار کو دیکھا تو چکر آگیا بمشکل خود کو سنبھالا’ کیوں کہ ملک میں مڈل کلاس لوگوں کی 2013 میں تعداد 62 لاکھ تھی ۔ ن لیگ کے 5 سالہ دور اقتدار میں تقریبا 1 کروڑ لوگ خط غربت کی لکیر سے اوپر آئے تھے۔

اور 2018 میں ان کی تعداد 1 کروڑ 60 لاکھ ہوگئی تھی۔ مگر آج ان میں سے 1 کروڑ 4 لاکھ لوگ دوبارہ خط غربت کی لکیر سے نیچے گر گئے ہیں۔ اب ملک میں مڈل کلاس لوگوں کی تعداد 56 لاکھ رہ گئی ہے۔ مجھے اسی وقت سمجھ آگئی کہ ن لیگ کی یہ کوئی چال تھی۔ ن لیگ نے 1 کروڑ لوگوں کو مصنوعی طریقے سے خط غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا تھا۔ ن لیگ نے انہیں یقینا کسی کمزور سی ٹہنی پر بٹھا دیا ہوگا جو اب ٹوٹ جانے کی وجہ سے نیچے گر گئے ہیں۔

اصل میں پچھلی حکومتوں نے قرض ہی اتنا لے لیا تھا کہ خان بیچارہ کیا کرتا۔ ن لیگ نے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھوادیا تھا۔ گروی رکھے ہوئے ملک کو ان کے قبضے سے چھڑانے کے لیے مشکلات تو آنی ہی تھیں نا۔ پھر ن لیگ کا لیا ہوا قرض بھی تو اتارنا تھا۔ 2 سال اسی لیے سب تہس نہس ہوگیا کہ خان صاحب قرضے اتارنے میں مصروف تھے۔ مگر یہاں بھی سخت مایوسی کا سامنا مجھے تب ہوا کہ خان صاحب بھی 6 ارب ڈالر لینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاپہنچے۔ مجھے یقین نا آیا میں نے سوچا کسی وزیر نے غلط کام کروادیا ہوگا کیونکہ خان صاحب تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خودکشی کرلینے کو ترجیح دیتے مگر کبھی آئی ایم ایف کے پاس نا جاتے ۔

مگر آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نا جانے کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے دوران ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی اور ملک سے بیرونی سرمایہ کاری واپس چلی گئی۔ کئی سرمایہ کاروں نے اس صورتحال سے پریشان ہوکر اپنا پیسہ کھینچ لیا اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائز میں اڑھائی ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اس تاخیر کو وزیراعظم صاحب نے اپنی غلطی قرار دیا اور آئی ایم ایف کے پاس دیر سے جانے کی غلطی تسلیم کرلی۔ مگر اس سے زیادہ حیرت تب ہوئی جب پتا چلا کہ ملکی قرضہ کم ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔

جتنا قرض ن لیگ نے اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں لیااتنا تو خان صاحب اپنے دو سالوں میں ہی لے چکے ہیں۔ ن لیگ نے 5 سالوں میں 13 ٹریلین روپے قرض لیا۔ اور خان صاحب اپنے پہلے دو سالوں میں ہی 13 ٹریلین روپے قرض لے چکے ہیں۔ پی پی نے روزانہ 5 ارب روپے ن لیگ نے روزانہ 7 ارب روپے قرض لیا جبکہ خان صاحب روزانہ 20 ارب روپے قرض لینے سے رفتار سے تمام ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔
مجھے سمجھ آگئی کہ یہ سب کیوں ہوا ۔ ملکی معیشت کا ن لیگ نے بڑا کباڑہ کیا ہوا تھا۔ خان صاحب کو اس کی بڑی فکر تھی۔

ن لیگ نے 5.8 فیصد پر ملکی ترقی کی شرح رکھی ہوئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ خان صاحب نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ یہ سب ملک کی معیشت کو پٹڑی پر چڑھاتے ہوئے ہوا ہے۔ اب ملک کی معیشت درست ہوجائے گی تو انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے ملکی ترقی کی شرح دیکھی تو وہ منفی 0.50 سے بھی نیچے تھی۔ مجھے بڑی ہنسی آئی ۔ بیچارہ اکیلا خان کیا کیا کرے ۔ اب دیکھو نا نااہلی ان کی ہڈیوں میں بس چکی ہے۔ ملک کی ترقی کی شرح کو 1951 پر ہی روک لیا ہوا ہے۔ کیونکہ 1951 کے بعد ملک کی ترقی کی شرح تو کبھی منفی ہوئی نہیں۔

ان نالائقوں نے اعداد و شمار ہی درست کرنے کی تکلیف نہیں کی۔ خان صاحب دن رات ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اب انہوں نے خود آکر تو اعداد و شمار ٹھیک نہیں کرنے نا۔ میں آگے بڑھ کر اعداد و شمار ٹھیک کرنے لگا کہ کسی نے مجھے ہوش دلانے کے لیے ٹھنڈے پانی سے منہ دھلوادیا۔ اور بتایا کہ ہماری ملکی ترقی کی شرح اس وقت منفی ہی ہے اور آئیندہ کے لیے بھی ورلڈ بینک نے کہہ دیا کہ یہ 1 فیصد سے اوپر نہیں جاسکتی۔ مجھے یقین نہیں آیا میں نے اردگرد کے لوگوں سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جب پوچھا تو ہر 5 میں سے 4 لوگوں نے ملک کی سمت کو غلط قرار دیدیا۔

لیکن میں اتنا بھی پاگل نہیں کہ ان لوگوں پر یقین کرکے اپنے کپتان کی نیت پر شک کرتا۔ مجھے پتا ہے کہ میرا کپتان ایماندار ہے۔ اور یہ لوگ جو مرضی کہتے رہیں۔ میں اپنے کپتان سے پوچھتا ہوں۔ وہ مجھے سب سمجھا دیں گے۔ میں خان صاحب کے پاس پہنچا تو وہ کسی تقریب سے خطاب فرما رہے تھے۔ مجھے خان صاحب کی تقریر سن کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ آج تک لوگوں کو پرچیاں پکڑ کر تقریریں کرتے دیکھا تھا۔ مگر میرے کپتان جیسی تقریر کوئی نہیں کرسکتا ۔

میں نے تقریر غور سے سننی شروع کی تو خان صاحب فرما رہے تھے کہ کسی کو بھی ملک میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے سیکھنا چاہئے۔ بغیر سیکھے کسی کو بھی اقتدار نہیں سنبھالنا چاہئے۔

ہم جو باہر سے دیکھتے تھے وہ اندر سے بالکل مختلف نکلا ہے۔ خان صاحب مشورہ دے رہے تھے کہ کسی کو بھی پاور میں آنے سے پہلے مکمل تیاری کرنی چاہئے۔ اپ کے پاس مکمل ایجنڈا ہونا چاہیے جس پر آپ عمل پیرا ہوسکیں۔ کیوں کہ ہمیں تو پاور سیکٹر کی ہی بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی۔

خان صاحب اپنی ناکامی کی وجہ اپنی ناتجربہ کاری کا قرار دے رہے تھےاس پر وہ ہر 5 میں سے 1 لوگ بغلیں بجا رہے تھے کہ خان صاحب کتنے اچھے لیڈر ہیں جو اپنی ناکامی کا کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں۔
جبکہ مجھے ایک شعر یاد آگیا۔

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا

Shares: