کیا بے بسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؟

ازقلم غنی محمود قصوری

کسی کے سامنے اس کے خلاف کام ہو اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نا کر سکے تو اسے بے بس کہا جاتا ہے
اس دنیا میں بے بس ہونا بھی ایک الگ ہی مقام رکھتا ہے بے بسی کا عالم ایک بے بس ہی جان سکتا ہے
میں تحریر زیادہ لمبی کرنے کی بجائے ایک مجبور و بے بس والدین کی دکھ بھری سچی داستان سناتا ہوں

یہ واقعہ ہے شہر قصور کا جہاں اندرون کوٹ فتح دین کے رہائشی عبدالرحمن بن قاری حفیظ اللہ کی شادی سنہ 2000 میں ہوتی ہے مگر اللہ کی مرضی سے اولاد نہیں ہوتی کافی دعا و دوا و علاج معالجہ کے بعد 2015 کو اس کے ہاں اللہ کے فضل سے ایک بیٹی جنم لیتی ہے جس کا نام سندس رکھا جاتا ہے وقت گزرتا چلا جاتا ہے اور سندس بولنا شروع کرتی ہے تو ماں باپ کہنے کے ساتھ بھائی بھائی کہنا بھی شروع ہو جاتی ہے
اس چھوٹی سی معصوم سندس کی فریاد کو اللہ رب العزت قبول کرتے ہوئے اسے 30 اگست 2020 کو ایک پیارا سا بھائی عطا کرتا ہے
سندس کی والدہ کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال قصور میں بڑا آپریشن ہوا ہوتا ہے سو وہ نیم بے ہوشی میں ہوتی ہے کہ سندس کی خالہ سندس کو اس کا بھائی دکھاتی ہے تو سندس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے مگر سندس کی خوشی زیادہ دیر نہیں رہتی کیونکہ اس کے بھائی کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک اغواء کار عورت لیڈی ڈاکٹر کے بہروپ میں ہسپتال کی گائنی وارڈ سے اس کے بھائی کو اغواء کر لیتی ہے

اس نومولود کے اغواء کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے قصور میں پھیل جاتی ہے
پولیس جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے اور بذریعہ سی سی ٹی وی فوٹیج کاروائی کا آغاز کرتی ہے اغواء کار عورت بڑی دیدہ دلیری سے بچہ اغواء کرکے مختلف سواریوں سے دربار بابا بلہے شاہ،بہادر پورہ سے ہوتی ہوئی لاہور چونگی امرسدھو سے غائب ہو جاتی ہے
پولیس کی بروقت کاروائی سے بذریعہ سی سی ٹی وی فوٹیج سراغ لگانے سے عورت کی فوٹیج پھیلا دی جاتی ہے اور آخر کار پورے ایک ہفتے بعد گھر والوں اور پولیس کی مشترکہ محنت سے ملزمہ کو قصور کے نواحی گاؤں سے گرفتار کر لیا جاتا ہے
ملزمہ انکوائری آفیسر کو بیان دیتی ہے کہ میں نے بچہ قبرستان شہداء مصطفیٰ آباد میں پھینک دیا تھا تو کبھی کہتی ہے میں نے دو عورتوں کو بیچ دیا یہاں تک کہتی ہے کہ میں نے مصطفیٰ آباد للیانی نہر میں بچہ پھینک دیا تھا مگر پولیس ہر جگہ تفتیش کرتی ہے بچے کا کوئی سراغ نہیں ملتا

بچے کے والدین ملزمہ کی منت سماجت کرتے ہیں کہ اللہ کے واسطے ہمارا بچہ دے دو ہم قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں تمہیں چھڑوا دینگے کیونکہ ہمیں تو ہمارا بچہ چاہئیے مگر ملزمہ ہر آنے والے دن اپنا بیان بدل جاتی ہے سو ریمانڈ ختم ہوتے ہی ملزمہ کو دفعہ 363 اے تعزیرات پاکستان لگا کر مقامی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے مگر یہ کیا عدالت اس کو جوڈیشنل کسٹڈی کے تحت جیل بیجھنے کے بجذئے عبوری ضمانت دے دیتی ہے اور ایسا پانچ بار ہوتا ہے
ملزمہ پولیس کی جانب سے درست دفعات نا لگائے جانے کے باعث عبوری ضمانت پر باہر گھوم رہی ہے جس کی وجہ پولیس کی جانب سے ملزمہ کو رعایت دیتے ہوئے دفعہ 363 لگانا ہے حالانکہ ملزمہ پر 364 اے اور 780 اے لگنی تھیں جس کی رو سے ملزمہ نان بیل ایبل تھی اور سزائے موت کی حقدار تھی مگر ایک بے بس ماں اور باپ کی بے بسی کو کچل کر پولیس نے ملزمہ کا ساتھ دیا اور اسی باعث ملزمہ 5 مرتبہ ضمانت کروا کر 23 جنوری 2028 کو قصور کے جج عمران شیخ کی عدالت پہنچی جہاں جج نے ملزمہ کی ضمانت کینسل کر کے اس کو جیل بیجھنے کے آرڈر جاری کئے مگر یہ کیا ابھی جج آرڈر لکھ رہا تھا کہ بے بس باپ کے سامنے ہی ملزمہ کمرہ عدالت سے فرار ہو گئی

ملزمہ کو فرار ہوتے دیکھ کر بے بس باپ مذید بے بس ہو گیا اور رونے لگا گھر پہنچا اہلیہ کو صورتحال بتائی تو ممتا تڑپ کر رب سے فریاد کرنے لگی الہیٰ کیا ہمارا غریب ہونا ہی ہماری بے بسی کا سبب بنا
وقت گزر رہا ہے ملزمہ شاہدہ بی بی زوجہ خان محمد حالیہ مقیم سکنہ دفتوہ قصور جو کہ سابقہ ضلع جھنگ کی رہائشی ہے دوبارہ لاہور ہائیکورٹ پہنچی اور ایک بار پھر 4 فروری 2021 تک اپنی عبوری ضمانت کروا لی
واضع رہے کہ ملزمہ 7 نومبر 2019 کو پہلے بھی بچہ اغواء کرتی پکڑی گئی تھی اور اس وقت چلڈرن ہسپتال لاہور میں نجی کمپنی کی طرف سے سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت کر رہی ہے جبکہ پولیس بیانات میں ملزمہ اقرار جرم کر چکی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی اس کی شناخت واضع ہے

مگر دنیا کے اس کرب سے بے خبر ننھی سندس روز اپنی ماں سے اپنی توتلی زبان میں پوچھتی ہے مما بھائی کب آئے گا؟ بے بس ممتا اتنا ہی کہہ پاتی ہے بھائی آ رہا ہے

ایک دکھیاری ماں بے بسی کے عالم میں ارباب اختیار سے پوچھ رہی ہے کیا بے بسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؟

Shares: