آج کل اس مسئلے کی وجہ سے کئی جگہ ناچاقیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سوچا اس پر کچھ لکھ دوں۔
اپنے ذاتی اخراجات یا اپنی بچت کے لیے عورتیں پہلے بھی گھروں میں کوئی نہ کوئی کام کرتی تھیں مثلاً کپڑوں کی سلائی ، کڑھائی یا چھکوریاں وغیرہ بنانا۔ اس آمدن پر صرف عورت کا ہی حق ہوتا تھا اور اس میں کوئی اختلاف کبھی نہیں ہوا۔ اب بہت ساری عورتیں گھروں سے باہر نکل کر سارا دن جاب کرتی ہیں اور اس تنخواہ پر بھی ان کے مؤقف کے مطابق صرف ان کا ہی حق ہے۔
یہاں میں اپنی رائے عرض کروں تو جو عورتیں گھروں میں رہ کر کام کرتی ہیں وہ اپنے فارغ اوقات میں سے کام کر کے اپنے لیے کماتی ہیں۔ جبکہ جو عورتیں پورا دن جاب کرتی ہیں وہ اپنے اصل کام یعنی گھرسنبھالنے والی ذمہ داری سے سبکدوش ہو کر یہ کام کر رہی ہوتی ہیں۔
اگر وہ مکمل طور پر سبکدوش نہ بھی ہوں تو بھی ان کی اس جاب کی وجہ سے گھر کے دوسرے افراد کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے۔ بچے یا تو گھر کے کسی دوسرے فرد کے پاس چھوڑنے پڑتے ہیں یا پھر ڈے کئیر میں۔ اس طرح بچوں کی تربیت اور ان کی اچھے سے دیکھ بھال متأثر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر عورت گھر میں رہے تو شام کو واپسی پر شوہر کو اچھے سے وقت دے سکے گی اور اس کا خیال بھی اچھے سے رکھ سکتی ہے۔ جبکہ سارا دن آفس میں کام کر کے تھک ہار کر لوٹنے والی بمشکل کھانا پکانا ہی کر سکے گی۔
مہمانوں کی آمد پر سارا کچھ باہر سے ہی منگوانا پڑے گا۔ گھر میں اگر بوڑھے والدین ہیں تو ان کی خدمت کے لیے نہ وقت ہو گا نہ انرجی۔ ایسے میں اگر سسرال والے یا شوہر اپنی بیوی کو جاب کی اجازت دے رہا تو اس کا یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کی ساری تنخواہ پر صرف اس کا حق ہے؟
یہاں ایک بات اور یاد رہے کہ آج کل ہونے والے رشتوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جاب والی لڑکی نہیں چاہیے اوراگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے جاب کر رہی ہو تو وہ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ شادی کے بعد جاب کی اجازت نہیں ہوگی۔ جاب چھوڑنی ہو گی۔ جاب والی لڑکیاں عام طور پر ایسے رشتوں کو ٹھکرا دیتی ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو باقاعدہ ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں کہ جاب والی لڑکی کا رشتہ ملے۔ انھیں شادی کے بعد بھی جاب پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ جاب والی لڑکیاں ایسے رشتوں کو پسند کرتی ہیں۔ لیکن یہاں پتہ نہیں وہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ وہ یہ رشتہ ہی جاب کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ اب اگر رشتہ ہی جاب کی وجہ سے ہو رہا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ساری تنخواہ پر لڑکی کا حق تسلیم کریں گے۔
یہ چند ایک باتیں اگر ذہن میں بٹھا لیں تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
یہاں اپنی ایک پرانی تحریر کا اقتباس بھی شئیر کر دیتا ہوں جو اس بات کو مزید واضح کر دے گا۔
معاشرے کی بنیادی اکیائی خاندان ہوتا ہے جو مرد اور عورت سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ہر خاندان میں دو قسم کی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔
۱۔ باہر سے کما کر لانا
۲۔ امورِ خانہ داری جیسے کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ
اب ان ذمے داریاں کو پورا کرنے کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔
۱۔ تمام ذمے داریاں کسی ایک پر ڈال دی جائیں۔ یقیناً کسی انتہائی مجبوری کے بغیر ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ اور ایسا تعلق کبھی بھی دیر پا نہیں ہو سکتا۔
۲۔ دونوں مل کر کمائیں اور دونوں گھر کے کام بھی مل کر کریں۔ بظاہر یہ آئیڈیل صورت لگتی ہے لیکن اس میں خاندان کا شیرازہ کس طرح بکھرتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس مغربی معاشرے کو دیکھ لیا جائے۔ بچے صبح سے شام تک کئیر سنٹرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ باہر کے کھانوں پر گزارہ ہوتا ۔ پھر جو لوگ میری طرح کافی عرصے سے یورپ میں رہ رہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو بھی دیرپا ، شادی شدہ جوڑے ہیں ان میں مرد ہاتھ تو بٹاتے گھریلو کاموں میں لیکن زیادہ تر کام خواتین ہی کرتی ہیں۔ اس طرح عورتوں کو ایک تو لازمی طور پر کام کر کے خود اپنے لیے کمانا پڑتا اور دوسری طرف گھریلو ذمینداریا ں بھی نبھانی پڑتی ہیں اور عورت پر دوہرا بوجھ ڈال دیا جاتا۔ اس لازمی طور پر کمانے کی وجہ سے عورتوں کو کیا کیا کام کرنے پڑتے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ایک کمائے اور دوسرا گھریلو ذمہ داری نبھائے۔ اگر کوئی حقیقی طور پر صحیح معاشرہ قائم کرنا چاہے تو یہی صورت ہی سب سے بہتر ہے۔ کسی بھی ادارے، کمپنی، ملک وغیرہ میں مختلف لوگ مختلف کام ہی انجام دیتے ہیں۔ اس طر ح اس کا نظام چلتا۔ ذمے داریاں تقسیم ہو جاتیں اور سب کام صحیح طور پر چلتے ہیں اگر سب اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔ اب اس صورت میں مزید دو آپشن ہوتے ہیں۔
الف۔ مرد کمائے اور عورت گھریلو ذمے داریاں سنبھالے۔
ب۔ عورت کمائے اور مرد گھریلو ذمے داریاں سنبھالے۔
اس میں کوئی دو رائے تو ہیں نہیں کہ اگر اس طر ح ذمے داریاں تقسیم کرنی ہوں تو کون کس ذمے داری کے لیے زیادہ موضوع ہے۔ مزید برآں اسلام جو پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اس میں بھی یہی صورت ممکن ہے کہ مرد کمائے اور عورت گھریلو ذمے داریاں سنبھالے۔ انسان کو بنانے والے نے خود مرد کو کمانے کا ذمہ سونپا ہے (سورہ النسا ، آیت ۳۴) اور وہی بہتر جانتا ہے کہ مرد ہی اس کام کے لیے سب سے زیادہ بہتر ہے۔
لیکن اگر کسی کو اسلام کے اس فیصلے سے اختلاف ہے تو وہ دوسرا تجربہ کر کے دیکھ سکتا ہے۔ یعنی بیوی کمائے اور شوہر گھر سنبھالے۔ اول تو بیوی طعنے دے دے کر ہی مار دے گی کہ فارغ بیٹھے رہتے ہو۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو جیسے ہی بیوی آفس سے گھر آئے شوہر پہلے ہی تیار بیٹھا ہو کہ چلو شاپنگ پر جانا ہے۔ یا یہ کہ آج کھانا باہر کھائیں گے۔ پھر ہر تھوڑے دنوں کے بعد ضد کہ مجھے میرے والدین کے گھر چھوڑ کے آؤ اور وہاں رہنے کے لیے پیسے بھی دو۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ تو دیکھیں کہ کتنے دن بیوی کماتی رہتی ہے۔
آخر میں مردوں سے گزارش ہے کہ گھر کے کام کو عار نہ سمجھیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، جب وقت ملتا تو گھر کے کاموں میں اپنی ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ اور عورتوں سے گزارش کہ ذمے داریاں بانٹ کر نبھائی جائیں تو گھرانہ احسن طریقے سے چلتا رہتا ہے۔ اور اپنے والدین کے گھر کام کر کے اگر کوئی نوکرانی نہیں بن جاتی تو شوہر کے گھر کام کرنے سے کوئی نوکرانی کیوں بن جاتی ہے۔