کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ؟ تحریر:ثمینہ کوثر

ہم دور جاہلیت کے مسلمان کیا ہم واقعی مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ اس کے لئے ہم سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ دور جاہلیت تھا کیا ؟ دور جاہلیت دین اسلام کے آنے سے پہلے کے دور کو کہا جاتا ہے ۔ اگر ہم اس دور کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دور جاہلیت میں ایک دوسرے کا حق مارنا فخر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ، ان کو اپنے ہاتھوں قتل کر دینا باعث افتخار سمجھا جاتا تھا ، ماں کو لاوارث سمجھ کر منڈیوں میں بیچ دیا جاتا تھا ۔ جائیداد کی طرح آپس میں تقسیم کیا جاتا تھا ، والدین کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا تھا ۔ غلاموں کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک کیا جاتا تھا ۔ طاقت ور کمزور کو انسان سمجھنے کو ہی تیار نہیں تھا اگر آج ہم اپنے معاشرے پر روشنی ڈالیں تو دور جاہلیت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ دور جاہلیت میں یہی تمام کام کفار ومشرکین کیا کرتے تھے جب کہ آج کے دور میں ہم نام نہاد مسلمان بھی یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ اگر ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سی ایسی برائیاں نظر آتی ہیں جو دور جاہلیت میں کفار و مشرکین میں موجود تھی ۔

سب سے پہلے ہم بات کریں گے کہ دور جاہلیت میں بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیا جاتا تھا اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو ابھی چند دن پہلے کا ہی واقع ہے کہ ایک آدمی نے اپنی چند دن کی بیٹی کو محض اس لیے گولیاں مار کر قتل کر دیا کہ وہ لڑکی پیدا ہوئی ہے اسے تو لڑکا چاہیے تھا ۔

اگر ہم غلاموں اور کمزور افراد کی طرف دیکھیں تو ابھی چند دن پہلے ہی ہم سب نے ایک واقعہ پڑھا کہ ایک کمزور انسان کے بچے نے ایک طاقتور کے گھر کے باغ سے ایک پھول توڑا تو طاقت ور انسان نے اپنے رشتے داروں کو بلایا اور پھول توڑنے والے بچے کے والد کو مار مار کر لہولہان کردیا کیا اور پھر اس غریب انسان کو رسیوں سے باندھ کر گھسیٹتے بھی رہے ۔ اگر ہم اسی ایک واقعہ کو دیکھیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے دور میں بھی غریب اور کمزور انسان بے بس اور مجبور ہیں اور طاقتور انسان اس کو جیسے مرضی کچھ چبھی کہہ سکتا ہے ۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک واقعہ واقعہ پیش آیا کہ بہو اور بیٹے نے بوڑھی ماں کو مار کر گھر سے نکال دیا اور بوڑھی ماں روتی ہوئی پولیس اسٹیشن جاپہنچی ، اگر دیکھا جائے تو کیا یہ لوگ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین سے ذرا سا بھی مختلف نہیں ہیں ۔ فرق بس اتنا ہے کہ وہ کافر اور مشرک تھے اور یہ لوگ پیدائشی مسلمان ہیں ۔ جو ہیں تو مسلمان لیکن اسلام کا انہیں کچھ بھی علم نہیں ہے ۔

ہمارے معاشرے کا بھی تو یہی عالم ہے کہ اگر کوئی غریب اپنی بیٹی کا رشتہ کسی بدچلن بدکردار کو نہیں دیتا تو اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا جاتا ہے ، اس پر تشدد کیا جاتا ہے اور پھر اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہے ، تاکہ لڑکی اور اس کے گھر والے کہیں بھی جینے کے قابل نہ رہیں ۔ اگر ہم دور جاہلیت کے خاتمے کی بات کریں تو صرف یہی ایک بات تھی کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنایا ، خاص طور پر اسلام کا نظام عدل اور انصاف ۔ جیسے ہی ان لوگوں نے اسلام کا نظام عدل و انصاف اپنایا تو اچانک سے وہی لوگ جو دنیا کے بدترین لوگ کہلاتے تھے وہی لوگ دنیا کو تعلیمات دینے لگے اور دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی راہ دکھانے لگے ، وہی لوگ جو جہالت کے سردار کہلاتے تھے ، وہی لوگ دنیا کے راہنما اور رہبر بن گئے اور آج بھی اگر ہم دیکھیں تو ہمیں ان سارے واقعات کے پیچھے صرف ایک ہی بات دکھائی دیتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام عدل و انصاف بری طرح متاثر ہوا ہے ہماری عدالتیں سیاستدانوں کے چکروں میں پڑ کر دن میں دو دو تین تین دفعہ ان کے کیس کی سماعت کرنے کو تیار ہیں لیکن مجبور بے بس غریب انسان جن میں سے اکثریت بے گناہ افراد پر مشتمل ہیں وہ اپنی زندگی کے کئی سال جیلوں میں ہی گزار دیتے ہیں ۔ 17 سال 18 سال 21 سال اور اس سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گذارنے کے بعد اکثر ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں کہ عدالت انہیں باعزت بری کر دیتی ہے جبکہ دوسری طرف طاقتور انسان اپنی دولت کے گھمنڈ اور اعلی شخصیات سے تعلقات کی بدولت عدل کو خرید لیتا ہے ۔ بیٹیوں کی عزتیں روند ڈالنے والے میرے معاشرے میں بربادی کا سبب بننے والے تو ضمانت لے کر دندناتے پھرتے ہیں اور غریبوں کو مزید پریشان اور مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے کیسز واپس لے لیں اور بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جو مظلوم ہوتا ہے وہی جیلوں میں سڑ رہا ہوتا ہے ۔ آج اگر ہمارے معاشرے میں بھی عدل و انصاف کا نظام بہتر ہوجائے تو آج پھر ہمارا معاشرہ سب سے روشن ہو سکتا ہے ۔ آج بھی ہم دنیا بھر کے رہنما بن سکتے ہیں ۔ یہ عدل ہی تو تھا جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے حکمران کے سامنے ایک عام سے شخص کو کھڑا کر دیا کہ بتاؤ عمر آپ نے اپنے حصے کا زیادہ کپڑا کیوں لیا ؟ اور وہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ چھوڑ کر پہلے کپڑے کا حساب دینا پڑتا ہے اگر آج ہم ایسا عدل و انصاف پالیں تو آج پھر ہم معزز ہو سکتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ان لوگوں نے اسلام کو دل سے تسلیم کیا تھا ، ان لوگوں نے اسلام کے لیے تشدد برداشت کیا تھا ، ظلم سہتے تھے ، اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لیے جانیں دی تھیں ، اسی لیے وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے لیے وقف کر گئے اور ہم پیدائشی مسلمان ہیں، نام نہاد مسلمان جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے ، ہمارے ہاں تعلیمی نظام بھی ایسا ہے کہ ہم حق اور سچ کو اپنانے کی بجائے صرف مفاد پرست انسان بن چکے ہیں ۔ مظلوم کو حق دینے کی بجائے غرور اور تکبر میں شاید فرعون اور نمرود سے بھی آگے نکل چکے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ ہمارے پاس ان کے جتنے اختیارات نہیں ہیں ورنہ ہم بھی ان سے کسی صورت مختلف نہیں لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی جب غرور و تکبر کو توڑنے پر آتا ہے ہے تو پھر جس دریا کا پانی فرعون کے حکم سے رک جایا کرتا تھا اسی فرعون کو اسی پانی میں غرق کر کے نشان عبرت بنا دیتا ہے ۔اس سے پہلے کہ اللہ تعالی ہمیں بھی دنیا جہان والوں کے لئے نشان عبرت بنائے ، ہمیں اس کے دین کی طرف لوٹ آنا چاہیے ۔ اپنی دینی تعلیمات کو اپنا لینا چاہیے ، یقیناً اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی طرح ہم دنیا بھر کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں

Comments are closed.