جنیوا: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہیں ’شاید‘ ایک ایسے نئے بنیادی ذرّے کے شواہد ملے ہیں جو ’ممکنہ طور پر‘ کسی ’پانچویں قوت‘ کا نمائندہ بھی ہوسکتا ہے۔
باغی ٹی وی :سرن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ذرّاتی طبیعیات کے سب سے بڑے بین الاقوامی مرکز ’سرن‘ میں تقریباً 900 سائنسدانوں کی عالمی ٹیم کو یہ شواہد سرن میں نصب ’لارج ہیڈرون کولائیڈر بیوٹی‘ (LHCb) نامی ذرّاتی اسراع گر (پارٹیکل ایکسلریٹر) میں 2011 سے 2018 کے دوران کئی تجربات سے جمع ہونے والے ڈیٹا کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد حاصل ہوئے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’لیپٹوکوارک‘ (Leptoquark) نامی اس ذرّے کے حق میں ملنے والی شہادتیں ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ انہیں پورے اعتماد سے اس نئے بنیادی ذرّے کی ’دریافت‘ قرار دیا جاسکے۔
Today the @LHCbExperiment at CERN announced new results which, if confirmed, would suggest hints of a violation of the Standard Model of particle physics 😮https://t.co/uf40WPJk27
— CERN (@CERN) March 23, 2021
لیپٹوکوارک کی تازہ شہادتیں اگرچہ اتنی مضبوط ہیں کہ ان کے غلط ہونے کا امکان صرف 0.1 فیصد ہے، لیکن فزکس میں نئی شہادتوں/ ثبوتوں کو ’دریافت‘ قرار دینے کےلیے ان کے غلط ہونے کا امکان 35 لاکھ میں صرف ایک، یعنی 0.00002857142 فیصد، یا اس سے بھی کم ہونا چاہیے۔
مانچسٹر اور سی ای آر این کے ایل ایچ سی بی کے ترجمان پروفیسر کرس پارکس کا کہنا ہے کہ ، اگر لیپٹو کوارک عالمگیریت کی خلاف ورزی کی تصدیق کردی جاتی ہے تو اس کے لئے ایک نئے جسمانی عمل کی ضرورت ہوگی ، جیسے نئے بنیادی ذرات یا تعامل کا وجود ،”-
یونیورسٹی آف مانچسٹر اور سی ای آر این کے ایل ایچ سی بی کے ترجمان پروفیسر کرس پارکس کا کہنا ہے۔ "موجودہ LHCb ڈیٹا کو استعمال کرنے سے متعلقہ عملوں کے بارے میں مزید مطالعات جاری ہیں۔ ہم یہ دیکھ کر بہت پرجوش ہوں گے کہ کیا وہ موجودہ نتائج میں دلچسپ اشارے کو تقویت دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ اب تک ہم کائنات میں چار بنیادی قوتوں سے واقف ہیں جنہیں ہم نے بالترتیب قوتِ ثقل (گریویٹی)، برقناطیسی قوت (الیکٹرو میگنیٹک فورس)، کمزور نیوکلیائی قوت (وِیک نیوکلیئر فورس) اور مضبوط نیوکلیائی قوت (اسٹرونگ نیوکلیئر فورس) کے نام دے رکھے ہیں۔
قوتِ ثقل کو چھوڑ کر باقی کی تینوں کائناتی قوتوں آپس میں یکجا کرنے کےلیے ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ کے نام سے ایک تھیوریٹیکل فریم ورک تقریباً 50 سال سے موجود ہے جو ان گنت تجربات و مشاہدات سے تصدیق کے بعد ذرّاتی طبیعیات میں ایک مستند نظریئے کا مقام بھی حاصل کرچکا ہے۔
البتہ، سائنسدانوں کی اکثریت متفق ہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل صرف ایک ’کام چلاؤ‘ نظریہ ہے جس میں بنیادی نوعیت کی بہت سی خامیاں ہیں جنہیں دور کرکے اس نظریئے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
لیپٹوکوارک کی حالیہ شہادتوں کا تعلق ’بیوٹی کوارک‘ نامی ایک بنیادی ذرّے سے ہے جو نہایت اعلی توانائی کے ماحول میں وجود پذیر ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے تقریباً 700 ارب ویں حصے میں ٹوٹ پھوٹ کر، یعنی انحطاط پذیر ہو کر الیکٹرون، میوآن اور ان کے اینٹی پارٹیکلز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اسٹینڈرڈ ماڈل کے مطابق، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے تقریباً یکساں تعداد میں الیکٹرون اور میوآن بننے چاہئیں۔ یہی وہ بات ہے جسے ماہرین ’لیپٹون آفاقیت‘ (Lepton Universality) کہتے ہیں۔
تاہم ’ایل ایچ سی بی‘ میں زبردست توانائی پر ’پروٹون بوچھاڑوں‘ میں تصادم سے بننے والے بیوٹی کوارکس کے انحطاط سے الیکٹرونوں کی تعداد، میوآنز سے زیادہ دیکھی گئی۔
یہ شواہد پہلی بار 2014 میں سامنے آئے تھے لیکن تب اسٹینڈرڈ ماڈل سے مطابقت نہ رکھنے والی ان شہادتوں کے غلط ہونے کا امکان ایک فیصد (1%) تھا۔
’ایل ایچ سی بی‘ میں مزید تجربات کی تیاریاں جاری ہیں جو اس سال شروع ہو کر مزید کچھ سال تک وقفے وقفے سے جاری رہیں گے۔ نئے تجربات میں بطورِ خاص ’لیپٹوکوارک‘ کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے حتمی امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔
البتہ، فی الحال ہم موجودہ شہادتوں کو امید افزا ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن ’دریافت‘ قرار نہیں دے سکتے۔
ماہرین کے نزدیک، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے نسبتاً زیادہ تعداد میں الیکٹرون بننے کی وجہ ’لیپٹوکوارک‘ نامی ایک بنیادی ذرہ ہے جس کی پیشگوئی تو بہت پہلے سے موجود ہے لیکن اب تک ہم اسے دریافت نہیں کر پائے ہیں۔