ملک میں جاری حالیہ آٹا بحران میں زیادہ تر لوگ حکومت کو کوس رہے ہیں۔ لیکن کیا واقعی صرف حکومت کا قصور ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ جو گندم ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہے اس کا کم سے کم چالیس فیصد ہم سب مل کر ضائع کر دیتے ہیں۔ اور اس ضائع کرنے میں امیر غریب سب شامل ہیں۔ ہر گھر میں روزانہ ایک سے دو روٹی زیادہ بنتی ہے جو ضائع ہو جاتی ہے۔ مختلف تقریبات خاص طور پر شادیوں پر تو بے انتہا کھانا ضائع ہوتا ہے۔ تب زیادہ تر لوگ یہی سوچ رہے ہوتے کہ مفت کا ہے، جیسے مرضی ضائع کرو لیکن وہی ضائع کرنا آج ہمارے سامنے آ رہا ہے۔

پھر جب ہوٹلوں میں کھاتے ہیں تب بھی ذرا سی روٹی ٹھنڈی ہونے پر نئی منگوا لیتے ہیں کہ پر ہیڈ ہی پیسے دینے ہیں تو کیوں نہ تازہ منگوائی جائے۔

ہمارے ملک میں گندم کی پیداوارتو ایک خاص حد تک ہے۔ اب اس میں سے جو بھی روٹی ضائع کرتے ہیں تو وہ ہمارے ملک کی گندم ہی ضائع ہوتی ہے۔ اس طرح جو ہم چالیس فیصد ضائع کر دیتے ہیں وہی گندم پھر ہمیں باہر سے منگوانی پڑتی ہے اور باہر سے منگوانے کے لیے ہمیں ڈالر چاہیں جو نہیں ہوتے۔ کیونکہ ڈالر تب آنے ہیں جب ہم ملک میں سے چیزیں باہر بیچیں اور پھر ان کے بدلے دوسری چیزیں منگوائیں۔

اب یہ تو ہم سب کر سکتے ہیں کہ جو بھی ہمارے بس میں ہو وہ روٹی ضائع نہ کریں بلکہ جو بھی بچے بڑے ، مردو خواتین ضائع کر رہے ہوں انھیں سمجھائیں۔ خواتین گھر میں روٹی بنانے سے پہلے سب گھر کے افراد سے پوچھیں کہ کس کس نے کھانی ہے اور کتنی کھانی ہے تاکہ اتنی بنائیں۔ جس دن بچ جائے اگلے دن اتنی کم بنائیں۔ جو بچ جائے وہ کوشش کریں کہ کسی غریب کو دے دیں تاکہ اس کا پیٹ بھر جائے۔

اسی کے ساتھ کچن گارڈننگ کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ گھر میں جو بھی ممکن ہو لازمی اگائیں۔ جیسے اگر ہم خود اپنا پیاز، لہسن بھی اگا لیں تو ملک کو ان پر جو ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں وہ بچ جائیں گے۔ تو ہم تھوڑا سا بھی حصہ ڈالیں تو تھوڑا تھوڑا کر کے ہی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔

حکمران نااہل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہم اپنے حصے کا کام تو کریں۔ اس سے ہی بہت زیادہ فرق پڑ سکتا ہے۔
شئیر کریں، اگر ہم صرف پانچ فیصد ضائع ہونے والی روٹی ہی بچا لیں تو ہمارا ملک کبھی گندم کے بحران کا شکار نہ ہو۔

Shares: