کس سے نجات پہلے ضروری ہے؟

0
36

کس سے نجات پہلے ضروری ہے؟

ازقلم غنی محمود قصوری

ارض پاک پاکستان کو بنے تقریباً 75 سال ہو چکےاس ملک کو بنانے کا مقصد ایک آزاد خودمختار ریاست تھا جو کہ صرف اور صرف قرآن و حدیث کے تابع ہونی تھی مگر افسوس صد افسوس کہ اتنے برس گزرنے کے بعد بھی غلبہ جہالت و ظلم کا ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل بھی تھا یعنی وہ مقصد حاصل نا ہوس سکا جس کی ضرروت تھی-

کہیں مہنگائی و بے روزگاری نے مار رکھا ہے تو کہیں وڈیرے جاگیر دار لوگوں کو جانوروں کی طرح مار رہے ہیں گزشتہ دن بلوچستان میں کنوئیں سے خاتون سمیت 3 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جن کا قاتل صوبائی وزیر سردار کھیتران تاحال آزاد گھوم رہا ہے اور یقیناً وہ آزاد ہی گھومے گا کیونکہ ریاست میں قانون تو ہے مگر ماڑے کے لئے تگڑے کے لئے قانون بہت کمزور ہے –

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں کنوئیں سے خاتون سمیت 3 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں وڈیروں کے ٹکڑوں پہ پلنے والی پولیس فوری حرکت میں ائی کیونکہ نوکری بھی تو کرنی ہے کبھی سرکار کی تو کبھی سردار کی پولیس نے بتایا کہ تینوں مقتولین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جبکہ مقتولہ خاتون کے چہرے پر تیزاب ڈال کر اسے مسخ کیا گیا ہے-

لاشیں شناخت کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال بارکھان منتقل کی گئیں جہاں خاتون سمیت تینوں لاشوں کی شناخت ہوگئی لاشیں خان محمد مری نامی شخص کی اہلیہ اور دو بیٹوں کی ہیں جو کہ صوبائی وزیر سردار کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے مقامی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مزید پانچ افراد صوبائی وزیر کی نجی جیل میں تا حال قید ہیں –

چند دن قبل مقتولہ خاتون نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر اپنی فریاد جاری کی تھی جو کہ سوشل میڈیا پہ وائرل بھی ہوئی صاحب اختیار لوگوں تک پہنچی بھی اس مظلوم عورت کی فریاد تھی کہ اس کی بیٹی اور اس کے ساتھ روزانہ زنا کیا جاتا ہے تاہم پھر بھی کسی کے کان پہ جو تک نا رینگی-

واضع رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی سینکڑوں ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں مگر ان سرداروں وڈیروں کو کوئی لگام نہیں ڈالی جا سکی اور شاید ڈالی بھی نا جا سکے گی کیونکہ یہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں فیصلے جمہور دیکھ کر کئے جاتے ہیں ناکہ انسانی منشور دیکھ کر افسوس کہ قوم کو مہنگائی نے اس قدر مار دیا کہ غریب اب سانسیں بھی مشکل سے ہی لے سکتا ہے مگر اس سے بھی بڑا افسوس کہ مغلوب عوام کو جب جی چاہتا ہے جیسے مرضی قتل کر دیا جاتا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنا تو دور کی بات اس کے خلاف آواز بلند کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انصاف کی عدم دستیابی ہے-

اس قوم کو روزی روٹی میں اس قدر مگن و مجبور کر دیا گیا کہ کوئی لبوں پہ حرف شکایت نا لائے اور جو لائے وہ زندہ نا رہنے پائے
جمہوری مفاد کی خاطر لوگوں کو مہنگائی کے خلاف سڑکوں پہ انے کی اور دنگے فساد کی ترغیب دی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے
مگر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھنے کی ترغیب بلکل نہیں دی جاتی کیونکہ وہ جانتے ہیں جو آج کسی دوسرے کے خلاف اٹھ گئے کل وہ ہمارے خلاف بھی الم بغاوت بلند کریں گے

اسی ڈر سے وہ لوگوں کو غیر ضروری کاموں میں الجھا کر مہنگائی کے خلاف سڑکوں پہ آنے کو جہاد قرار دیتے ہیں حالانکہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

مسلمانو ! جو لوگ قتل کر دیے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص (یعنی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ (لیکن بدلہ لینے میں انسان دوسرے انسان کے برابر ہے) اگر آزاد آدمی نے آزاد آدمی کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہی قتل کیا جائے گا (یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کی بڑائی یا نسل کے شرف کی وجہ سے دو آدمی قتل کیے جائیں جیسا کہ عرب جاہلیت میں دستور تھا) اگر غلام قاتل ہے تو غلام ہی قتل کیا جائے گا ( یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کے آزاد ہونے کی وجہ سے دو غلام قتل کیے جائیں) عورت نے قتل کیا ہے تو عورت ہی قتل کی جائے گی اور پھر اگر ایسا ہو کہ کسی قاتل کو مقتول کے وارث سے کہ (رشتہ انسانی میں) اس کا بھائی ہے معافی مل جائے (اور قتل کی جگہ خوں بہا لینے پر راضی ہو جائے) تو (خوں بہا لے کر چھوڑ دیا جا سکتا ہے) اور ( اس صورت میں) مقتول کے وارث کے لیے دستور کے مطابق (خوں بہا کا) مطالبہ ہے اور قاتل کے لیے خوش معاملگی کے ساتھ ادا کر دینا۔ اور دیکھو یہ ( جو قصاص کے معاملہ کو تمام زیادتیوں سے پاک کرکے عدل و مساوات کی اصل پر قائم کر دیا گیا ہے تو یہ) تو تمہارے پروردگار کی طرف جرف سے تمہارے لیے سختیوں کا کم کر دینا اور رحمت کا فیضان ہوا۔ اب اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو یقین کرو وہ (اللہ کے حضور) عذاب درد ناک کا سزاوار ہو گا

قتل کے بدلے قتل اور خون بہا لے کر معافی بھی ہےمگر سب خاموش کوئی نہیں کہتا مظلوموں کو کہ اٹھو اپنی آنے والی نسلوں کے لئے نکلوں ہتھیار پکڑو ظالموں کو مارو اور اگر وہ ڈر کر معافی مانگ کر خون بہا دے دیں تو اسے معاف کرو پیسہ لے کر تاکہ آگے اسے اسے پتہ ہو خون اتنا سستا نہیں مگر افسوس کون ہے جو بتائے گا؟کون ہے جو راستہ دکھائے گا کیونکہ اب تو راستے بغیر مفاد نہیں دکھائے جاتے

Leave a reply