بلوچ طلبا بازیابی کیسَ:کیا ہم خود جب لاپتہ ہوں گے تب سمجھ آئے گی؟،اسلام آباد ہائیکورٹ

پاکستان میں کوئی قانون نہیں، لاپتہ افراد کا الزام ہماری ایجنسیوں پرہے
0
154
islamabad highcourt

اسلام آباد: بلوچ طلبا بازیابی کیس میں عدالت نے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے کہا کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، پھر آپ دونوں کو گھر جانا پڑے گا۔

باغی ٹی وی: اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی کمیشن عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اخترکیانی نے سماعت کی اس موقع پر نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، نگراں وزیر انسانی حقوق خلیل جارج اور لاپتہ بلوچ افراد کے اہل خانہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے، نگراں وزیراعظم انوار الحق عدالتی حکم کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش نہ ہوئے۔

بلوچ طلبا بازیابی کیس کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے کہا کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، پھر آپ دونوں کو گھر جانا پڑے گا۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں شروع

دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ مجموعی طور 69 طلباء لاپتہ تھے،اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے، مزید 22 بلوچ طلباء بازیاب ہوگئے ہیں، 28 بلوچ طلباء تاحال لاپتہ ہیں، میں یقین دہانی کراتا ہوں تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ بنیادی حقوقِ کا معاملہ ہے، جس کا پاکستان میں جو دل کررہا ہے وہ کررہا ہے، اس کیس میں سارے طالبعلم ہیں، یہ ہمارے اپنے شہری ہیں، پاکستان میں کوئی قانون نہیں، لاپتہ افراد کا الزام ہماری ایجنسیوں پرہے، یا تو بتائیں کہ دوسرے ملک کی ایجنسی نے بندے اٹھائے ہیں ، ایک مخصوص ادارے پر الزامات ہیں ،تحقیقات بھی اسی سے کرائیں گے ؟ ریاستی ادارہ کوئی کام کرے تو انہیں پراسکیوٹ کون کرے گا، ان میں سے کوئی دہشت گرد ہے تو کارروائی کریں، سوال بہت سادہ ساہے پیش کی گئی رپورٹ سےلگتا ہے اگر ہم کلبھوشن کا ٹرائل کرسکتے تو باقیوں کا بھی کرسکتے ہیں۔

ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور وقع دیا جائے،لاہور ہائیکورٹ

وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ بہت سارے افراد عدالتی مفرور ہیں، کچھ افراد افغانستان چلےگئے، الخانہ کمیشن میں درخواست دے دیتے تو یہ افراد فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں،اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پاکستان میں جس کا جو دل کر رہا ہے وہ کر رہا ہے، المیہ ہے کہ مقدمہ اندراج کے بعد خاموشی چھاجاتی، کیا ہم خود جب لاپتہ ہوں گے تب سمجھ آئے گی؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کا بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے اور یہاں انتظامیہ 365 کے تحت ایک کارروائی کرکے منہ دوسری طرف کر لیتی ہے ، جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں عدالت کے سامنے پیش کریں ، کسی ایجنسی کو استثنی نہیں کہ جس کو مرضی برسوں اٹھا کر لے جائیں ، پھر وہ تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں ، کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں ، جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آکر کہتا ہے میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا ، بند کمروں میں کسی کی نہیں سنوں گا ، جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں۔

فائرنگ کے مختلف واقعات ، پولیس اہلکار سمیت 5 افراد جاں بحق

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ کوئی قانون سے ماورا نہیں، قانون کا یہ چکر چلے گا تو وہ لوگ بھی پراسکیوٹ ہوجائیں گے جو جبری گمشدگیاں کر رہے ہیں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پولیس بندہ لیکر جاتی ہے بعد میں بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے، تھانے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہاں بندہ ہی نہیں، جبری گمشدگی والے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں ، سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نا ہوں، جبری گمشدگی کیسز کا حل نکال کر رہا کریں یا عدالت پیش کریں ، آج تک کسی اسٹیٹ کے ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہے۔

لاپتہ بلوچ شخص کی بہن عدالت کے سامنے بات کرتے ہوئے جذبات پر قابو نا رکھ سکیں اور رو پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو 2018 میں گرفتار کیا گیا ، سرفراز بٹی کہتے ہیں یہ چھوٹا سا مسئلہ ہے میرا سب کچھ رک گیا ، ہم سارا گھر ختم ہو گیا ہے چھ سال سے دھکے کھا رہے ہیں۔

کاروبار کے آغاز پر 100 انڈیکس میں 470 پوائنٹس کا اضافہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، پھر آپ کو اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا، دو ہفتے میں ان افراد سے ملاقات کریں اور مسئلہ حل کرائیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے سرفراز بگٹی سے کہا کہ اس معاملے پر سیکرٹری دفاع کو ہدایات جاری کریں اور ماتحت اداروں کو بلا کر پوچھیں بڑے واضح الفاظ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں ، سیکرٹری دفاع و سیکرٹری داخلہ بھی ذمہ دار ہوں گے ، مجھے رزلٹ چاہے یہ بچی آئندہ سماعت پر کہے کہ میرا بھائی واپس آگیا ہے، ان سے ملیں ان کو بلا لیں یا خود پریس کلب جائیں ان کی بات سنیں،نگران وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ دو دن میں مل لوں گا کھانے پر بلاؤں گا، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 10جنوری تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 22 نومبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عالیہ نے وزیراعظم سمیت وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو بھی آج عدالت طلب کیا تھا۔

شہباز شریف رمضان شوگر ملز ریفرنس میں احتساب عدالت پیش

Leave a reply