کیا میڈیا آزاد ہے؟؟
ہمارے وزیراعظم نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے ملک کا میڈیا آزاد ہے۔ یہ بھی اس طرح کا جھوٹ ہے جیسا جھوٹا 2013 کے الیکشن 35 پنکچر والا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ہمارے ملک کا میڈیا حق اور سچ کو نہ دکھاسکتا ہے اور نہ ہی حق بتا سکتا ہے۔ بلکہ کتمان حق بڑے جوش وخروش سے کرتا ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا کر قوم کو نان ایشوز میں مصروف رکھنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔
ملک کا میڈیا یہودی اور ان کے ہمنواؤں کا میڈیا ہونے کا بھرپور ثبوت دیتا ہے۔ اور غیر مسلم اور ملک دشمن ایجنڈے کو خوب پھیلاتا ہے۔ ہر کام جو اسلام کے خلاف ہو وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نشر کرتا ہے بلکہ مختلف چینلز کا اس میں مقابلہ ہوتا ہے۔
بےحیائی، عریانی اور فحاشی کے کلچر کو یہ میڈیا خوب پروموٹ کرتا ہے۔ بلکہ” میرا جسم میری مرضی” جیسے بیہودہ اور واہیات پروگراموں کی مسلسل اور لائیو کوریج بھی کرتا ہے۔ اسلام اور دینی لوگوں کو بدنام کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کے لئے ماروی سرمد جیسی آوارہ اور بدچلن عورتوں کو بھی خوب پروموٹ کرتا اور انہیں وقت دیتا ہے۔
یہی میڈیا ہے جس نے 2014 کا مشہور دھرنا 126 دن تک دن رات دکھایا تھا۔ چند سو افراد اور باقی خالی کرسیاں ہوتی تھیں جنہیں یہ مکمل اور لائیو کوریج دیا کرتے تھے۔ جب کہ اس دھرنے کے مقابلے میں دینی جماعتوں کے بڑے بڑے اور بھرپور پروگرام ہوتے ہیں جنہیں کوریج دینے سے یہ میڈیا ہمت نہیں رکھتا بلکہ ان پروگراموں کی جھلکیاں بھی صحیح طور پر نہیں دکھاتا۔
کل پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کا ختم نبوت کے سلسلے میں ایک تاریخی اور بہت بڑا پروگرام ہوا جس میں قائد جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان صاحب اور قائد اہل حدیث علامہ پروفیسر ساجد میر صاحب اور دیگر نے خطاب کیا۔ جس قدر پروگرام بڑا تھا اس کے مطابق میڈیا میں کچھ بھی کوریج نہیں دی گئی۔ کیونکہ یہ آزاد میڈیا نہیں بلکہ غلام اور دجالی میڈیا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ اب دینی جماعتیں بھی اپنے سیاسی چینلز قائم کریں اور اس میڈیا سے آزادی حاصل کریں۔
۔۔۔۔۔۔ عبدالرحمن ثاقب سکھر