سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں میزائل کا حملہ ہو جس کے بعد ریاض کے ہوائی اڈے کو پروازوں کی آمد ورفت کے لئے چند گھنٹوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا-
باغی ٹی وی :کیا یہ حملہ سعودی عرب اور اسرائیل کی سازش ہے ؟ اور ایران پر حملہ کس کی خواہش ہو سکتی ہے؟ اور اگر یہ حملہ یمن اور حوتی باغیوں نے نہیں کیا تو پھر کس نے کن مقاصد کے تحت کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس حملے کے بعد سب کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور پاکستان کے سینئیر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان نے بھی اس حوالے سے یوٹیوب پر پنے آفیشل اکاؤنٹ پر ویڈیو اپلوڈ کی-
اپنی ویڈیو میں مبشر لقمان نے کہا کہ ایران عراق کی اس خطے میں بڑی دھواں دار لڑائی رہی اور سالہا سال بعد ختم ہوئی جس میں سارے مسلمان ممالک دونوں سائیڈوں پر انواولڈ تھے لیکن بڑے دکھ کی بات ہے کہ اب لگتا یہ ہے کہ خدا نخواستہ یہ خطہ دوبارہ شعلوں کی لپیٹ میں آ رہا ہے اور یہ لگ رہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں-
سینئیر صحافی کے مطابق کل کے دھماکے بھی اسی سلسلے کی جکڑی ہیں اور بہت اہم کڑی ہیں اور کیوں اہم ہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ الجھنیں ہیں اور ان الجھنوں کو میں تھوڑا سا آسان کر کے بتا ر ہوں تاکہ آپ کو اس معاملے کی سمجھ آ جائے-
مشر لقمان نے بتایا کہ کل سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض کے اوپر دو میزائل حملے ہوئےاطلاعات کے مطابق ایک ریاض کے ائر پورٹ پر حملہ ہو اہے اور یہ کنفرم خبر ہے اور دھماکے کے بعد کئی گھنٹے تک ائیر پورٹ بند رہا فلائٹس بند رہیں اور جو فلائٹس آ رہی تھیں ان کو متبادل ائیر پورٹ پر اتارا گیا اور جانے والی فلائٹس کو روک دیا گیا-
ان کے مطابق یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب رن وے فنکشنل نہ ہو یا مزید حملوں کے خطرات ہوں سعودی عرب کے اندر میزائل اور ڈرون حملے ایک عام سی بات ہے لیکن ریاض میں نہیں کیونکہ یمن سے ریاض کا فاصلہ تقریباً سات سو چونسٹھ میل بنتا ہے اور یہ جو حوتی باغی لوگ ہیں وہاں پر ان کے پاس لانگ رینج میزائل ویپن سسٹم نہیں ہے نہ ان کے پاس لانگ رینج میزائلز ہیں دوسری طرف یمن کے باغی لوگوں نے ان حملوں انکار کر دیا کہ یہ حملے ہم نے نہیں کئے –
سینئیر صحافی کے مطابق اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ حملہ انہوں نے نہیں کیا تو پھر کس نے کیا ہے؟ ایک نامعلوم گروپ اٹھا اور اس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس گروپ کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ نہ اس گروپ کی تشکیل کا پتہ ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ یہ کب وہاں پر آئے-
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ حملہ کرایا گیا ہے اور اس لیے کرایا گیا ہے کہ سعودی عرب اس پر ردعمل دے اور کسی طرح ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے آ جائیں دوسری جانب ایران یمن کے باغیوں کی کھل کر سپورٹ سالہا سال سے کرتا آرہا ہے پچھلے سال بھی آرامکو میں میزائل حملے میں اس سے اس ریفائنری کو بڑا نقصان ہوا تھا 2020 میں اس کی یمن باغیوں نے ذمہ داری قبول کر لی تھی لیکن وہ جدہ میں تھا-
تاہم ریاض تک کا فاصلہ بہت دور ہے اتنا لانگ رینج میزائل کتنے ممالک کے پاس ہیں کجا اس کے کہ یہ کسی باغی کے پاس ہیں یا کسی ریبل کے پاس ہیں یا ان کے پاس آ گئے ہیں تو یہ ساری ٹیکنالوجی ان کے پاس کیسے آگئی اور پھر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے یہ حملہ نہیں کیا-
مبشر لقمان کے مطابق اب سب ضروری بات یہ ہے کہ یمن کے باغی اس حملے سے انکاری ہیں تو ان کی بات ماننی پڑے گی کیونکہ جب بھی کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں-
مبشر لقمان نے یہ بھی بتایا کہ ایران اور چائنہ کے اکنامک پیک میں 480 بلین ڈالر چائنہ نے ایران کو کمٹ کیا اور میری اطلاع کے مطابق ایران فوری طور پر یمن کے اندر جا کر ایک بیس بنا رہا ہے اور اس کے اوپر کام ہو رہا ہے جبکہ ان کے کہنے کے مطابق ہم ریفائنری پر کام کر رہےہیں لیکن اصل میں وہ بیس ہے-
انہوں نے کہا کہ بہت پہلے ایک پروگرام میں آپ کو میں نے بتایا تھا کہ اگرایران کا یمن میں بیس بنتا ہے تو وہاں پر باغی پر اس کا کنٹرول ہوتا ہے تو پورے جبوتی اور یمن کے درمیان تقریباً 70 کلو میٹر کا فاصلہ ہو گا یا ان کے ساحل سمندر سے پچاس کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا اور وہاں پر سعودی کارگو بحری جہاز آئل لے کر جاتے ہیں اور یہ اس ایرایا کو ہٹ کرنے والے ہیں مطلب سعودی عرب کی اکانومی کا اندازہ لگا سکتے ہی کہ اب یہ ملک چلے گا یا نہیں چلے گا اگر ان کی ایکسپورٹ اتنی زیادہ ہٹ ہوتی ہیں-
مبشر لقمان نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ کل ہی حملوں کے بعد اسرائیل آرمی چیف کا بیان سامنے آگیا کہ نیو کلئی ایران غیر محفوظ ہے اور ہم اس پر حملہ کر سکتے ہیں کچھ ناقدین کا تو یہ کہنا ہے کہ جو اعلان سعودی عرب خود نہیں کر سکتا تھا اس نے اپنے دوست ملک سے کرایا کیونکہ اسرائیل اور ایران میں اگر خدانخواستہ کوئی معاہدہ ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی کانٹریکٹ کسی کے لئے بھی اچھا نہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پوری ائیر سپیس جورڈن اور سعودی عرب کی استعمال ہو گی اور اگر ان کے جہازوں کو ری فیول کرناہے تو سعودی عرب کے اندر آ کر ری فیول کرنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ براہ راست اس جنگ میں شریک ہیں اگر ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو-
اینکر پرسن کے مطابق کل کے حملوں پر ناقدین کا بیان آیا کہ اس کے پیچھے بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا غصہ ہے ان کی خواہشات ہیں لیکن یہ بہت ہی اسٹرینج ایلیمنٹ ہو گیا ہے کہ دو میزائل حملے ہو گئے ہیں ایک کی ذمہ داری قبل کر لی گئی ہے ایک کی نہیں –
انہوں نے بتایا کہ میری ریاض میں رہنے والے کچھ لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا د دھماکے ہوئے اور چند منٹس کے وقفے سے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دو حملے ہوئے ہیں ایک کو مان لیا گیا ہے لیکن دوسرے کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ وہ ریاض کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا ہی نشانہ بنایا گیا لیکن لیکن سات سو چونسٹھ میل یعنی ایک ہزار یا گیارہ سو کلومیٹر اڑنے والا میزائل کون وہاں سے سعودی عرب کے اوپر داغ سکتا ہے یہ ایک بہت بڑی پہیلی ہے-
مبشر لقمان نے سوالیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ کیا ہمارے پورے خطے میں کوئی خود سے یہ آتش بازی کر رہا ہے تاکہ ہم غصے میں آئیں اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑیں اس کا کس کو فائدہ ہے اور کون یہ خواہشات رکھتا ہے ہماری اپنی دشمنی اپنی جگہ پر لیکن یہ میزائل حملہ یہ مجھے بڑا اس نے حیران و پریشان کر رکھا ہے-