جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کا پہلا لفظ "اقرائ” تھا، یعنی "پڑھ”۔ اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پڑھنے یعنی علم سیکھنے کے کیا فوائد ہیں، کیوں کہ جب ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ پڑھ لیا، تو اللہ تعالی نے پورا قرآن شریف آپ کے دل میں اتار دیا۔ اس ایک لفظ اقراءیعنی پڑھنے کے لفظ کی اہمیت افادیت کو اچھی طرح جان سکتے ہیں اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ علم کے بغیر کوئی بھی کام اور عمل بے معنی ہے، یعنی علم ایک ایسی شے ہے، جو ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا اور ہم اس کو جتنا پھیلائیں گے، یہ اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا، مگر افسوس آج ہم علم کی اہمیت و افادیت کو بھول چکے ہیں۔ یہ علم ہی ہے جو ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھاتا ہے اور ہمیں یہ پہچاننے میں مدد دیتا ہے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے۔ آج پاکستان کی عوام بہت سے مسائل سے گزر رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم علم سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جس کی وجہ سے ہم اپنا اچھا اور برا سوچنے سے قاصر ہیں۔
دورِ حاضر بلکہ کسی بھی دور میں کوئی بھی تعلیم کی حقیقت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا، جو معاشرہ تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ہے، وہ ہر میدان میں پستی اور زوال کا شکار رہتا ہے۔ علم کی افادیت اپنی جگہ ایک کثیر خزانہ سمیٹے ہوئے ہے، ہمیں علم کے بارے میں کئی احادیث اور اقوال ملتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ "علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک” اسی طرح حضرت علی کا فرمان ہے کہ "علم مال سے بہتر ہے، کیوں کہ تمھیں مال کی حفاظت کرنی پڑتی ہے، جب کہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے۔”
مندرجہ بالا حدیث شریف اور قول سے تو آپ کو علم کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں عوام کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، اس خوف اس کے کہیں وہ علم کی دولت سے آشنا ہوکر ظالم لوگوں سے اعلان بغاوت نہ کر دیں۔
جب انسان دنیا میں آتا ہے، بڑا ہوتا ہے، ہوش سنبھالتا ہے۔ گھر والے کچھ ہی بڑے ہونے کے بعد اسے سکھا دیتے ہیں کہ اسے کیا بننا ہے، فوجی، ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل وغیرہ۔ پھر وہ اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے اور وہ زندگی بھر تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے مگر 98 فی صد متوسط طبقے کی تعلیم حاصل کرنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے اور اس کا خواب کبھی شرمندہ ¿ تعبیر نہیں نہیں ہو پاتا اور وہ ناخواندہ ہی رہ جاتا ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی جزو ہے، دنیا بھر کی ترقی یافتہ قومیں تعلیم کی وجہ سے دوسری قوموں پر سبقت حاصل کرتی ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کا تصور ہی نہیں کر سکتی، مگر جب پاکستان کی بات ہو تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک حکومت نے تعلیم پر خاص توجہ نہ دی اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھا۔
شاید حکمرانوں کا کردار ایسا رہا ہی نہیں کہ وہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھ سکتے کبھی اسمبلیوں میں منتخب کردہ نمائندگان کی جعلی ڈگریاں نکل آتی ہیں، تو کبھی نظام ہی میں تبدیلی لاکر تعلیم کی شرط کو کم کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی 70 فی صد آبادی آج تک ناخواندہ ہے۔ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوش حال وباوقار ملک بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں پورے عزم کے ساتھ اپنے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔ اس عمل کے لیے پاکستان میں دُہرے تعلیمی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور کم سے کم عرصے میں ہنگامی بنیادوں پر پورے ملک میں ناخواندگی کے خلاف کام کیا جائے ناخواندگی ختم کرنا نا ممکن نہیں، لیکن مشکل ضرور ہے۔ ملک میں صرف ایک فی صد لوگ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں اور پھر یونیورسٹیوں پر نظر ڈالی جائے، تو نجی یونیورسٹیوں میں غریب بچے کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن سی بات لگتی ہے۔ یہ پاکستان کے نظام تعلیم سے ایک مذاق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اچھی تعلیم حکمرانوں جاگیرداروں وڈیروں کے لیے دوسرے درجے کا معیار تعلیم ہے اور اس لیے بھی انتظام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہترین تعلیمی نظام کے لیے کوریا، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں حکومت کو چاہیے کہ دُہرے تعلیمی نظام مکمل طور پر خاتمہ کرے اور پاکستان کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا زیادہ سے زیادہ قیام عمل میں لایا جائے اور وہاں یک ساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے۔
٭٭٭
ٹیوئٹر : @fahadpremier