ستاروں کی جھلملاتی روشنیوں، سمندر کے گہرے پانیوں اور انسانوں کے جذبات واحساسات نے ہماری التفات کو ایسے اپنی جانب مبذول کیا یے کہ ہم اپنی ذات سے پرے انہی لطافت میں کہیں کھو گئے ہیں۔ ہم انسانوں کی ایک دوسرے سے انیست اور محبت کی ضرورت کسی طور کم نہیں ہو سکتی۔ ازل یہ نظام محبت قائم ہے۔ جب یہ دنیا تخلیق کی گئی تو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام دونوں کو ساتھ زمین پر اتارا گیا، تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے سکون و راحت کا سبب بنے۔
بتدریج انبیاء کرام آتے رہے، اور لوگوں کو اللّٰہ کی راہ پر گامزن کرتے رہے۔ مگر رفتہ رفتہ یہ نظام کائنات بدلتا گیا، لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات اور انبیاء کرام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہیں۔ اور نتیجتاً اپنی اصل کو بھولتے گئے۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں اسلام آیا، تو لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے رہے اور ایمان رگوں میں سرایت کرتا گیا۔ مگر اکیسویں صدی کے لوگ جدیدیت کی طرف رواں دواں ہیں۔ وہ تمام کام جن کو کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اب انہیں بصد شوق سر انجام دیا جاتا ہے اور پھر اسے ” ماڈرنزم” کا لقب دے جاتا ہے
درحقیقت یہ ماڈرنزم انسان کی اصل کو تیرگی میں چھپا دیتی یے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں، ہمیں زندگی بخشنے والا کون ہے؟ اور ہم سے زندگی چھینے والا کون ہے؟ ہم یوں ہی تو دنیا میں نہیں آگئے ہیں؟
” لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے ”
وقت بدلتا گیا، اور چیزوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جذبات واحساسات میں بھی ملاوٹ کی آمیزش ہوتی گئی۔ اور گزرے سمے کے ساتھ محبت بھی زائل ہوتی گئی۔ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کی تلاش میں سرگراں رہے۔
"اتم سے اتم ملے اور ملے نیچ سے نیچ، پانی سے پانی ملے اور ملے کیچ سے کیچ”
جب اپنی ہی صفات و نوعیت کے لوگوں میں کیف و سرور نہ ملا تو، انسان اپنے ذہن میں بنتے حبس میں مبتلا ہوتا گیا، یوں محبت اور عقیدت کی آس میں ڈپریشن کا مریض بن گیا۔
دماغ میں چلتی ہزار ہا فکروں اور پریشانیوں کے ملبے تلے یہ آواز آئی۔
” کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو”
یکایک دل سے صدا آئی:
” کون ہے میرا؟ ”
یہ سوال سن کر روح نے عہد الست کی یاد تازہ کی۔
جب عالم ارواح میں اللّٰہ تعالیٰ نے تمام روحوں سے عہد و پیمان باندھا تھا۔
"کیا میں تمہارا رب نہیں ؟”
کیوں نہیں؟ ” تو ہی تو ہمارا رب ہے۔”