‏کج فکر و کج نگاہ و کج اخلاق و کج نہاد پھیلا رہا ہے عالم اخلاق میں فساد تحریر: ذوہا علی

0
52

‏دین اخلاقی قدروں کی سر بلندی کا نام ہے اور مادی ترقی اور مادی عروج بالکل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل کیں ان آسمانی کتب میں بھی خیر کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور شَر کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ نبیوں اور مصلحین امت ہمیں بتایاہے کہ اچھی قوموں میں اخلاقی قدروں کی پزیرائی کی جاتی ہے اور بُرے اخلاق پر مذمت ہوتی ہے۔
لیکن اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تو اللّٰہ تعالٰی نے انسانی فطرت کے اندر یہ چیز رکھی ہے کہ خَیر کیا ہے اور شَر کیا ہے۔ یہ بات انسان کو خود بھی پتہ ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ اگر ہم کسی انسان کو اذّیت پہنچائیں، کسی کمزور کا حق غضب کریں، کسی کے حقوق پامال کریں تو ہمارا دل و دماغ ہمیں خود بتاتا ہے کہ یہ کام غلط ہے۔ ہمارا ضمیر ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” جب تمہاری نیکی تمہیں خوش کر دے اور تمہاری بُرائی تمہیں پریشان کر دے تو جان لو کہ تم مومن ہو ”
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ پھر انسان گناہ کرنے کے باوجود بھی کچھ محسوس نہیں کرتا۔ اسے پتا نہیں چلتا کہ وہ اچھائی کے راستے پر ہے یا بُرائی کے۔ وہ کمزور لوگوں سے فریب کرنے کے باوجود اپنے ساتھیوں سے داد وصول کر رہا ہوتا ہے اور یوں وہ انسان اپنے مکر و فریب کو اپنی فنکاری تصوّر کرتا ہے اور یہ اس انسان کی بدترین کیفیت ہوتی ہے۔
ایک انسان کا انسانِ کامل بننا اور انسانیت کے مرتبۂ کمال تک پہنچنا آ سان نہیں ہے اور شاید منٹ بھی نہیں ہے۔ لیکن انسانیت اور اخلاقیات کے معیار پر پورا اترنا بھی اوّلین شرط ہے۔ جیسے کسی پھول میں خوشبو نہ ہو تو اس پھول اور داغ میں کوئی فرق باقی نہیں بالکل اسی طرح جس مسلمان میں انسانیت اور حُسن اخلاق نہ ہو تو اسے مسلمان تو کیا انسان کہنا بھی جائز نہیں ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو اچھائی کی طرف راغب کرے۔ اگر سب افرادِ خانہ بیٹھ کر لوگوں کی برائیوں کا ذکر کریں گے تو دِلوں میں نفرتوں کے بیج لگ جائیں گے جو کبھی تن آور درخت بن کر زندگی کی رونقوں کو چھین لیں گے۔ اسی لیے انسان کو اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لےکر اپنے اچھے اخلاق و کردار کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اس سے ایک اچھا خاندان اور اچھا معاشرہ تشکیل پائے گا۔ کیونکہ فرد سے خاندان بنتا ہے، خاندان سے معاشرہ بنتا ہے اور اچھے معاشرے اپنے دین اور اپنے ملک کی سربلندی کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتے ہیں۔
دورِ حاضر میں انسان اپنے عزیز و اقارب سے غلط رویّے اور تلخ جملے استعمال کرتا ہے۔ ہمارا دین اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارا دین تو کیا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم حُسنِ اخلاق اور حُسنِ کردار کو اپنا شعارِ زندگی بنائیں۔ دوسروں کی غلطیوں کو عدم برداشت کرنے کی بجائے معاف کر دیں اور ایک خوبصورت ماحول پیدا کریں تا کہ ہمارے قول و فعل سے ہم اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت احکامات کی تعمیل کر کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو یہ بات ثابت کر دیں کہ ہمارا دینِ اسلام واقعی ایک مکمل دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے موجود ہیں۔
انسان مجبورِ محض ہے۔ اللّٰہ کی طاقت اور توفیق کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے انسان کو ہمیشہ اللّٰہ سے ہدایت طلب کرنی چاہیے تا کہ اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔ اگر کوئی انسان اپنے نفس کا قیدی ہے ، اپنی آنا میں مگن ہے اور پھر بھی خود کو مسلمان تصوّر کرتا ہے تو ایسا انسان خود پر زیادتی کر رھا ہے۔ ایک مسلمان کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار سے غیر مسلموں کو متاثر کر کے دین کی طرف راغب کرے لیکن اگر یہی مسلمان اس کے برعکس کام کر رہا ہے اور اپنے نفس کی پیروی کر رہا ہے تو یہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔ بیشک تمام مخلوق اللّٰہ تعالٰی کا کنبہ ہے اور وہی شخص اللّٰہ کا دوست ہو سکتا ہے جو اسکی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔
Name : Zoha Ali
Twitter handle : @ZoHaAli_15

Leave a reply