لکھاریوں کی معروف تنظیم "اپوا” نے رواں سال ستمبر کے مہینے میں کمراٹ اور جہاز بانڈہ کا دورہ کیا تھا جس میں مجھ سمیت دس لکھاری حضرات شامل تھے.اس یادگار سفر کی روداد کو میں نے سفرنامے کی صورت میں ڈھال دیا ہے،

مارگلہ نیوز: وادی کمراٹ میں سیاحت
وادی کمراٹ جہاں قدرت گلے ملتی ہے
سفرنامہ نگار: فلک زاہد
(پہلی قسط)

اس بار میرا سفر "وادی کمراٹ” کی جانب تھا جس کے بارے میں سبھی کا کہنا تھا کہ وہ ایک دلکش و دلنشین وادی ہے جس کا حسن انسان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے جس کی خوبصورتی میں انسان ایسا غوطہ لگاتا ہے کہ دوبارہ اس میں سے ابھر نہیں پاتا جسکے گھنے جنگلوں میں ایک سرسراہٹ سی ہے جسکی برف پوش پہاڑیوں میں لاتعداد کہانیاں سی ہیں جسکی جھیلوں میں صدیوں کے راز پوشیدہ ہیں جسکے پہاڑوں میں عجب بادشاہوں سا وقار ہے اور جسکی ہواؤں میں الگ ہی بدمستی ہے-

ایسی تعریفیں سن سن کر میں نے نجانے کتنی ہی بار اپنے خوابوں میں خیالوں میں تصورات میں وادی کی سیر کی تھی اور شدت سے میرا دل اس دن کا منتظر تھا جس دن میرے قدم اس جنت نظیر وادی میں رنجا ہونے تھے.

میں ایک بہادر, نڈر سخت جاں اور مہم جو لڑکی واقع ہوئی ہوں مجھے نئ نئ جگہیں دیکھنے اور دنیا گھومنے کا بہت شوق ہے..چاہے کتنے ہی گھنٹوں پر سفر محیط کیوں نہ ہو لمبے سے لمبا سفر مجھے نہیں تھکاتا راہ میں آئی کوئی مشکل میرے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیتی کیونکہ میں راجپوتوں کی جواں سالہ دوشیزہ ہوں جس کے ارادے مستحکم اور مضبوط ہیں جسکے قدم لڑکھڑاتے اور ڈگمگاتے نہیں ہیں جسکا دل ذرا سی مشکل سے گھبراتا نہیں ہے جس کا سر پہاڑوں کی بلندیوں کو دیکھ کر چکراتا نہیں ہے اور نہ ہی جسکی ٹانگیں پہاڑوں کے نشیب کو دیکھ کر کانپتی ہیں.

میں تو وہ ہوں جو بلا خوف و خطر گبن جبہ کے دریا اور اس کی آبشار میں موجود بڑے بڑے دیوہیکل پتھروں پر یکے بعد دیگرے کسی شیرنی کی مانند چھلانگ لگاتی چلی جاتی یے.

میں تو وہ ہوں جو بہرین کی پہاڑیوں کی بلندیوں سے بغیر کسی سپیڈ بریکر کے نشیب کی جانب بھاگتی چلی جاتی ہے.
میں تو وہ ہوں جو ٹھنڈیانی کی برف پوش پہاڑیوں پر اکیلے دور بہت دور خود کلامی کرتے ہوئے ناک کی سیدھ چلتی چلی جاتی ہے
میں تو وہ ہوں جو نیلا واہن کی آبشار دیکھنے کے جنون میں کئ فٹ اونچا پہاڑ چڑھ بھی لیتی ہے اور اتر بھی لیتی یے
میں تو وہ ہوں جس نے مالم جبہ کی سرد رات میں اکیلے سڑک پر نکل کر کسی جن بھوت کے ملنے کی خواہش کی ہے.
میں تو وہ ہوں جس نے کلام کی مال روڈ پر رات دیر تک مٹر گشتی کی ہے
میں تو وہ ہوں جس نے سردیوں کی راتوں میں ایبٹ آباد کی سڑکوں پر لانگ ڈرائونگ کی ہے-

جی ہاں یہ میں ہی ہوں جس نے خان پور ڈیم کے پانیوں سے دل کی باتیں کی ہیں یہ میں ہی ہوں جس نے ٹیکسلا کے کھنڈرات میں سرگوشیاں سی سنی ہیں اور یہ بھی میں ہی ہوں جس نے مری گلیات اور نتھیا گلی کے حسن کو اپنی آنکھوں میں جذب کر لیا ہے.

وہ بھی میں ہی تھی جس نے ناران کاغان کی جھیل سیف الملوک سے رازونیاز کیا ہے جس نے دریا سوات کی گہرائیوں میں اپنے برہنہ پیروں کو اتارا ہے..میرا رشتہ ان دریاؤں اور پہاڑوں سے بہت گہرا اور پرانا ہے.یوں لگتا ہے میرا ان پہاڑوں میں نام لکھا جاچکا ہے یہ پہاڑ اور دریا بھی اب بن اداس ہوجاتے ہیں جبھی چند ماہ بعد مجھے آوازیں دینے لگتے ہیں اور جنکی آواز ہواؤں کے دوش پر لہراتیں بل کھاتیں میرے دل تک پہنچ جاتی ہیں.

اور اب میری اگلی منزل "وادی کمراٹ” تھی.
کمراٹ کے پہاڑ مجھے آوازیں دینے لگے تھے وہاں کی یخ ہوائیں مجھ تک پیغام محبت ارسال کرنے لگی تھیں. کمراٹ کی یہ آوازیں میں نے دل کی آواز سے سنی تھیں اور انکی آوازوں پر لبیک کہا تھا.

ہمیشہ کی طرح میری والدہ ماجدہ کی اس بار بھی یہی کوشش تھی کہ مجھے ٹور پر جانے نہ دیا جائے اور کسی بہانے روک لیا جائے یہ جاننے کے باوجود کہ بات جب پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی ہو تو یہ لڑکی کہاں رکنے والی ہے.

مگر اس بار کچھ الگ تھا کچھ ایسا جو اس سے قبل نہ کبھی ہوا تھا اس بار ملک بھر میں مسلسل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے والد صاحب کا دل بھی گھبرا رہا تھا جنہوں نے کبھی مجھے "نہ” نہیں کی تھی.

"نہ” تو خیر اس بار بھی نہیں کی تھی تاہم اتنا کہہ کر مجھے بھی پریشان کر دیا تھا کہ "میرا دل نہیں مان رہا حالات ٹھیک نہیں باقی آپ خود دیکھ لو جیسے دل چاہے-”

پہلی بار والد صاحب کے لبوں سے ان کلمات نے سوچنے پر مجبور کر دیا اور میں جو جانے کا ارادہ ملتوی کرنے ہی والی تھی کہ معاً خبر ملی کہ ان علاقوں میں ریڈ الرٹ جاری ہونے کی صورت میں لکھاریوں کی تنظیم "اپوا” نے ٹور کینسل کر دیا ہے..پوری ٹیم میں مایوسی سی پھیل گئ سب کو اب یہی امید تھی کہ یہ ٹور اب نہ جا سکے گا اگلے سال ہی روانہ ہوگا کیونکہ کمراٹ کے پہاڑ شائد فی الحال ہمیں استقبال کرنے کو راضی نہیں تھے مگر چند دن بعد وہاں سے حالات کے بہتر ہونے کی خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں اور "اپوا” کے بانی ہمارے لیڈر ایم ایم علی بھائی نے اعلان کر دیا کہ ٹور اگلے ہفتے روانہ ہوگا سابقہ شیڈول کے مطابق.

ایک بار پھر سے مرجھائے چہروں اور مردہ دلوں میں نئ روح پھونک دی گئ تھی اور سب ایک بار پھر ایک نئے جوش اور ولولے سے جانے کی بھرپور تیاری کرنے لگے تھے.

میں جو کبھی کسی ٹور سے بھاگی نہ تھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اس بار دل کو کچھ گھبراہٹ سی تھی اسکی وجہ یقیناً یہی تھی کہ اس بار میری بڑی بہنا میرا جگر گوشہ میرے ساتھ کچھ مصروفیت کی بنا پر جا نہیں پا رہا تھا…میرے ہر سفر میں میرا ہم راہی میرا ساتھی میرا رفیق میرا دوست میری بہن فضہ زاہد رہی ہے جو اس بار ساتھ نہ تھی تو اداسی ہر طرف سے حملہ آور تھی اور دوسری طرف میری عزیز از جان سہیلیاں مہوش احسن اور قرۃ العین خالد کا ساتھ بھی میسر نہ ہونے کے باعث تنہائی کسی ناگ کی طرح ڈس رہی تھی.کیونکہ ہم تکون تقریباً ہر سفر میں ایک ساتھ رہے ہیں اور اس بار ان میں سے کسی کا نہ جانا بہت ہی دل سوز تھا.

میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار علی بھائی سے کیا تو انکے ساتھ ساتھ آپی حفصہ خالد اور آپی شانیہ چوہدری کے بھرپور حوصلہ دینے پر میں نے اپنے دل کو بہ مشکل قابو کیا اور جانے کے لیے نیم رضا مندی ظاہر کر دی تھی. تاہم دل میں برابر ایک عجیب سے گھبراہٹ طاری رہی.

چونکہ اس بار میرا سفر کمراٹ جیسی دیو مالائی وادی کی جانب تھا لہذا اس بار میری تیاری بھی بھرپور تھی میں نے اپنے لیے نئے رنگ برنگے لباس خریدے تھے تاکہ وہاں کے سبزہ زاروں پر میں تتلیوں کی مانند اچھل کود کرتی ہوئی کمیرے میں اتاری تصایر میں کسی شہزادی سے کم نہ لگوں. اور یہ تیاری میری دوسری خواتین کی مانند ہی کئ روز چلتی رہی تھی.

بلاآخر نو ستمبر جمعرات کی رات کو ہم دس ممبرز پر مشتمل لکھاریوں کی ٹیم جن میں پانچ مرد اور پانچ ہی خواتین تھیں نے اپنی اپنی رہائش گاہ سے احمد ٹریولرز لاہور کی جانب پیش قدمی کی.کمراٹ پہلے ہم سب اپنی گاڑی پر جانا چاہتے تھے تاکہ جہاں دل کرے گاڑی روک کر تازہ دم ہو لیا جائے مگر یوں اخراجات زیادہ آرہے تھے چنانچہ طے یہی پایا کہ لاہور سے دھیر تک لوکل جایا جائے جو مناسب اور سستا بھی تھا.

ہم سب احمد ٹریولرز کس طرح پہنچے یہ ایک الگ کہانی ہے تاہم میرے ساتھ صحافی توقیر کھرل اور شاعرہ شانیہ چوہدری تھیں چونکہ رات کا وقت تھا اور ہماری گاڑی کہاں سے روانہ ہونی تھی اس بارے ہم میں سے کسی کو صحیح طور سے معلوم نہ تھا اس لیے ہم تینوں نے ساتھ جانے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ ہم تینوں کا روٹ ایک ہی تھا.ہم شانیہ آپی کے کزن کی گاڑی پر جسکو وہ ڈرائیو کر رہا تھا گوگل میپ پر اس لوکیشن کو فالو کرتے جاتے تھے جو علی بھائی نے شئیر کر رکھی تھی اللہ اللہ کر کے جب ہم لاہور کی طویل اور کوفت میں مبتلا کر دینے والی ٹریفک کو روند کر اپنی منزل پر پہنچے تو وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہماری گاڑی جو کہ آٹھ بجے کی تھی جاچکی ہے اور ہم سب ساڑھے آٹھ بجے پہنچ پائے تھے اور اب اگلی گاڑی رات بارہ بجے ہی روانہ ہوگی.

یہ سن کر ہم سب کے دل ڈوبنے لگے تھے بعداذاں معلوم پڑا کہ یہ محض علی بھائی کا ہم سے ایک مذاق تھا تاکہ ہم سب وقت پر پہنچ جائیں کیونکہ گاڑی نو بجے کی تھی جو روانہ ہونے کے لیے تیار کھڑی تھی.اس خبر سے سب کی سانس میں سانس آئی تھی اور سب یکدم سے ہلکے پھلکے ہوگئے تھے.
چند لمحوں میں سارا سامان بس پر لاد دیا گیا تھا اور ہماری گاڑی ٹھیک رات کے نو بجے لاہور سے دھیر کی جانب عازمِ سفر ہوچکی تھی.
یہاں پر اپنی ٹیم کا تعارف کروا دینا ضروری سمجھتی ہوں.

صحافی توقیر کھرل پہلی بار اپوا ٹیم کے ساتھ سفر کر رہے تھے جو آن لائن وڈیو گرافک ڈیزائنر عبداللہ ملک کے ساتھ براجمان تھے.عبداللہ بھائی اس سے پہلے بھی ہمارے ساتھ کلر کہار, نیلا واہن اور کھیوڑہ مائنز کا سفر کر چکے تھے.

چیف آرگنائزر آپی ثنا آغا خان بھی اس بار پہلی مرتبہ ہمارے ساتھ سفر میں شریک تھیں جو بہت ہی خوش اخلاق اور بہت زیادہ محبت اور خیال رکھنے والی انسان ہیں ان کو جاننے سے قبل انکے متعلق جو میرے خیالات تھے انکا ذکر آگے چل کر ہوگا.

سینیئر نائب صدر آپی فاطمہ شیروانی نہایت نرم اور شفیق طبیعت کی مالک انسان جن کے بغیر ہمارا کوئی سفر کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا.آپ کی ایک کتاب "تیرے قرب کی خوشبو” بھی شائع ہوچکی ہے..یہ دونوں خواتین ایک ساتھ براجمان تھیں.

میرے ساتھ کتاب "گردشِ ایام” کی شاعرہ آپی شانیہ چوہدری سیکرٹری کو آرڈنیشن اپوا دھیر تک براجمان تھیں جو بہت ہی محبت رکھنے والی فیاض دل انسان ہیں.

صدر صاحب بھائی ایم ایم علی جو کہ کتاب "صدائے حق” کے مصنف ہیں, جوائنٹ سیکرٹری و مقرر حفصہ خالد کے ساتھ جبکہ سیکرٹری اطلاعات سفیان علی فاروقی نائب صدر محمد اسلم سیال کے ساتھ نششت رکھے ہوئے تھے.

چونکہ رات کا سفر تھا لہذا پوری بس مدھم رشنیوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی لیکن ہم دوست جب اکٹھے سفر پر ہوتے ہیں تو سفر میں مشکل سے ہی سو پاتے ہیں ہمارا زیادہ تر سفر ہنستے بولتے قہقے لگاتے جاگتے ہوئے گزرتا ہے ہم آنے والے لمحوں کے لیے اس قدر پرجوش ہوتے ہیں کہ نیند ہماری آنکھوں سے میلوں دور ہوتی ہے.خاص طور پر جب ہمارے ساتھ زندہ دل حفصہ خالد ہوں جن کے بنا ہمارا کوئی سفر نہیں ہوا کبھی اور محفلِ جاں علی بھائی ہوں تو سفر کا مزہ دو گناہ بڑھ جاتا ہے اس بار حس مزاح سے بھرپور سفیان علی بھائی بھی پہلی بار ہمارے ساتھ سفر میں موجود تھے جن کی شخصیت بظاہر تو سنجدیگی سے بھرپور ہے مگر وہ اس قدر پرمزاح اور اچھے انسان ہیں یہ سفر کےدوران معلوم ہوا.

پاکستان کے مختلف علاقوں کی سیر میں نے زیادہ تر انہی لوگوں کے ساتھ کی ہے لہذا انکے ساتھ تجربہ ہمیشہ خوشکن اور خوشگوار رہا ہے مگر کمراٹ کا سفر سب سے زیادہ یادگار رہا ہے جسکی یادیں ہمیشہ میرے دل کے نہاں خانوں میں موجود رہیں گی.
جو سفر میرا اس ٹیم کے بنا ہوا ہے وہ خاص خوش آئندہ کبھی نہیں رہا کیونکہ سفر میں ہم خیال دوست ساتھ ہوں تو سفر طویل اور بوجھ نہیں لگتا بلکہ سفر کا مزاہ دوبالا ہوجاتا ہے.

ہمارا پہلا پڑاؤ تقریباً بیس بچیس منٹ کا رات ایک بجے پشاور موڑ پر ہوا جہاں تمام مسافر تازم دم ہونے کے لیے بس سے اتر آئے جن میں ہم بھی شامل تھے.اس موڑ پر موجود دکان سے اسلم بھائی نے ہم سب کو چائے پلائی جسکا ذائقہ آج بھی زبان پر محسوس ہوتا ہے اس سفر کی شروعات کی یہ پہلی چائے تھی جس کے بعد ایسی بہترین چائے دوبارہ پورا سفر پینا نصیب نہ ہوئی.
(جاری ہے)

Shares: