اگر آپ باشعور اور حساس والدین ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کسی کا محتاج نہ ہو ، وہ خود اعتماد ہو، زندگی میں کسی پر بوجھ نہ بنے ، زندگی کے چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کی ہمت کر سکتا ہو ، وہ دوسروں سے گھل مل سکتا ہو ، نہ صرف اسکول کی تعلیمی سرگرمیوں میں بلکہ روز مرہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل ہو ۔ وہ آپ کیلئے سرمایہ افتخار بن سکے آپ کا فرماں بردار ہو لوگ اس سے ملیں تو اس سے خوش ہوں اس کے پاس دولت، شہرت، طاقت اور آزادی وغیرہ سب کچھ ہو ۔
یقیناً یہ وہ خواہشات ہیں جو تمام ہی والدین رکھتے ہیں ۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اپنے ساتھ ان کا بھی نام روشن کرے لیکن کیا سب والدین کی یہ خواہش پوری ہوتی ہے ؟
عموماً آدمی پچاس سے ساٹھ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے لیکن چند لوگ ایسے ہیں جن کا نام ان کی موت کے بعد بھی ہزاروں سال تک یاد رکھا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ عام لوگوں اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے دنیا انہیں یاد کرتی ہے ؟ کیوں لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں ؟ یہ لوگ ایسا کیا کر گئے کہ دنیا کے مؤثر ترین لوگوں میں شامل ہو گئے یہ مؤثر اور معروف لوگ بھی کبھی نہ کبھی بچے تھے بلکل عام بچوں کی طرح انہوں نے زندگی گزاری تھی لیکن غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کچھ خاص عوامل ان افراد کے پچپن میں ایسے ہیں جو ان کے مستقبل کو دیگر افراد کے مستقبل سے مختلف کرتے ہیں
سوال یہ ہے کہ بعض بچے بڑے ہو کر "ہیرو” کیوں بن جاتے ہیں اور کچھ "زیرو” کیوں رہ جاتے ہیں ؟
ہمارے پاس عموماً دوسروں کی کامیابی اور اپنی ناکامی کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے "مقدر” لیکن جب آپ صرف ایک وجہ کو حتمی مان لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کبھی بھی حقیقت شناس نہیں ہو پاتے ، یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ "سیب” اور "کیلے” پر لیکچر سن کر اس موضوع پر کتاب پڑھ کر آپ سیب اور کیلے کے ذائقے سے آشنا ہو جائیں سیب اور کیلے پر چار پانچ گھنٹے کا لیکچر سنیں ، چار پانچ گھنٹے بحث کرنے اور تین سو صفحات پر مشتمل کتاب پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ سیب اور کیلا چکھ لیں آپ کو حقیقت کا علم خود ہو جائے گا ہر چیز کی وجہ قسمت نہیں ہوتی کچھ معاملات اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بھی رکھے ہیں قسمت یا مقدر پر الزام لگا کر ہم اپنی زمہ داری سے آنکھیں چرانا چاہتے ہیں لیکن نتیجہ تو صرف حقیقت کا عمل ہی آتا ہے آپ کا یہ طریقہ آپ کو اطمینان سے ایک جگہ بٹھا تو سکتا ہے لیکن آپ کے نتائج کو بدل نہیں سکتا اولاد کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آپ اپنی اولاد کیلئے جتنے بڑے خواب دیکھیں اور نیک خواہشات دل میں رکھیں آپ ان خوابوں کی تعبیر اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک آپ ان کیلئے عملی اور حقیقت پر مبنی تدابیر نہیں کریں گے ۔
یاد رکھیئے ! دولت مندی نتیجہ ہے ، غربت نتیجہ ہے ، صحت نتیجہ ہے ، بیماری نتیجہ ہے ، نیک نامی نتیجہ ہے ، بدنامی نتیجہ ہے ، کامیابی نتیجہ ہے ، ناکامی نتیجہ ہے اختیار اور بے اختیاری بھی نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق ایک منظم نظام کے تحت کی ہے جس میں مختلف قوانین کام کر رہے ہیں ایک قانون یہ بتاتا ہے کہ ہر نتیجے کا ایک سبب ہوتا ہے نتیجہ خواہ دولت کی شکل میں ہو یا غربت کی صورت میں ، کامیابی کی شکل میں ہو یا ناکامی کی صورت میں ، غور کریں تو ہر ایک کے پس منظر میں کوئی سبب ، کوئی وجہ ملے گی ۔ اسی طرح آپ کے بچے کا جو مزاج اور مستقبل ہے اس کا سبب اس کی پچپن کی تربیت ہے
Sabir Hussain
@SabirHussain43