کیا بھروسہ ہے زندگانی کا …. فرحان شبیر

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
” ہم سب رنگ منج کی کٹھ پتلیاں ہیں عالم پناہ ، جنکی ڈور اوپر والے کے ہاتھوں میں ہے کب کسکا کردار ختم ہوجائے کوئی نہیں جانتا ۔ ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔”
اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ ابھی زندہ ہیں آپکا دل دھڑک رہا ہے اور اعضاء بھی کام کر رہے ہیں ۔ دل اس لئیے دھڑک رہا ہے کہ خون کو سارے جسم میں گھمادے تاکہ خون میں موجود ہیموگلوبین کے ذریعے پھیپھڑوں سے آکسیجن کو جسم کے ایک ایک مسام تک پہنچا دے اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو جسم کے ایک ایک مسام سے پکڑ کر پھیپھڑوں کے ہی راستے واپس باہر فضا میں خارج کرا دے ۔ حضرت انسان کے سانس لینے کا یہ عمل جب تک رواں رہتا ہے انسان زندہ رہتا ہے سانسوں کی مالا ٹوٹتے ہی زندگی کی ڈور بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ ہم کھانے کے بغیر تقریبا 30 دن ، پانی کے بغیر تین سے چھ دن تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن آکسیجن کے بغیر چند منٹ سے زیادہ بھی نہیں گذار سکتے ۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جو ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔

دو ارب سال پہلے زمین پر آکیسجن کا آج کی طرح گیس کی صورت علیحدہ سے کوئی وجود نہیں ہوتا تھا یہ مرکب یعنی Compound form میں پائی جاتی تھی ۔ جیسے پانی میں ( H2O ) یا کاربن ڈائی آکسائیڈ ( CO2) . یہ تو اس وقت پیدا ہونے والے سائینو بیکٹیریاز کا احسان کے انہوں نے سمندروں سے لیکر پہاڑوں تک اپنی آبادیوں کو پھیلایا اور کاربن ڈائی اکسائیڈ کو اپنے اندر لے کر آکسیجن بناتے چلے گئے اور یہ سلسلہ آنے وال دو چار سال نہیں بلکہ اگلے 150 کروڑ سالوں تک اسی طرح نان اسٹاپ چلتا رہا ۔ ہر سائینو بیکٹیریاتا یہی کام کرتا رہا ۔ وہ جنم لیتا تھا اپنے حصے کی CO2 کو آکسیجن O2 میں تبدیل کرکے ختم ہوجاتا تھا ۔ یہ انہی سائینو بیکٹیریاز کی سانسیں لے کر چھوڑی ہوئی آکسیجن ہے جو آج ہماری زندگی کی بنیاد ہے جس کے بغیر ہماری زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔

دو ارب سال پہلے زمین پر حیات ، زندگی یا life بہت ہی اممیچیور فارم یعنی اپنی ابتدائی حالت میں تھی یعنی اس وقت life یونی سیکولر سیل اور تھوڑے بہت ملٹی سیکولر سیل کی سطح تک ہی پہنچی تھی ۔آسان الفاظ میں دو ارب سال پہلے زمین پر چاروں طرف جہاں کہیں بھی زندگی تھی تو وہ صرف بیکٹیریاز کے ہی پیکر میں پائی جاتی تھی ۔ ان بیکٹیریاز میں سب سے زیادہ تعداد جس مخصوص بیکٹیریا کی تھی اسے سائینس کی دنیا نے سائینو بیکٹیریا کا نام دیا ہے ۔

یہ سائینو بیکٹیریا 13 ارب سال پہلے وجود میں آنے والی اس کائنات میں life یعنی حیات نامی سپر ڈوپر ہٹ فلم کا بڑا ہی اہم اور بڑا ہی خاموش سا کردار رہا ہے خدا کی اس کائنات میں اس سیارہ زمین پر دو ارب سال پہلے جنم لینے والے اس سائینو بیکٹیریا نے وہ کام کیا جس پر ہم انسانوں کو اسکا شکر گذار ہونا چاہئیے ۔ کیونکہ یہ سائنو بیکٹریا اس وقت کی فضا پر چھائی زندگی کے لئیے نقصان دہ گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کو inhale کرکے آکسیجن کو ریلیز کرتا تھا اور آج ہمارے اردگرد کی فضا میں موجود آکسیجن O2 اسی ننھے سے نہ نظر آنے والے سائنو بیکٹیریا کے کروڑ ہا کروڑ سالوں تک اسی طرح سانس لینے کا نتیجہ ہے ۔

آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ بات شروع کہاں سے کی تھی اور کہاں پہنچ گئی لیکن ذرا تصور کریں اگر میں اور آپ بھی ایسے ہی کوئی سائینو بیکٹریا ہوتے جو اس کائنات میں صرف اتنا ہی کردار ادا کرتے کہ اپنے حصے کی کچھ کاربن ڈائی آکسائڈ وصول کرتے اسکو آکسیجن میں کنورٹ کرتے اور کچھ ہی منٹوں کی زندگی گذار کر اس جہان فانی سے کوچ کرجاتے تو کیا ہمیں اپنی وہ ننھی سی زندگی بے مقصد اور ب کار نا لگتی ۔ کیا ہم اپنے اس وقت کے بیکیریائی شعور کی سطح پر اپنے اس چھوٹے سے کردار کو اس بڑی ساری کائنات کے گرینڈ ڈیزائن میں کبھی سمجھ بھی پاتے ؟ کیا ہمیں اندازہ بھی ہو سکتا تھا کہ ہمارے ہی سانس لینے سے پیدا ہونے والی آکسیجن ڈیڑھ سو سے دو ارب سالوں کے ایک طویل ترین عرصے بعد اتنی اہمیت کی حامل ہوجائیگی کہ زمین پر پائے جانے والے ہر جاندار کے لئیے لازم و ملزوم ہوجائے ۔

وہ بیکٹیریا اتنا شعور نہیں رکھتا تھا کہ یہ ساری باتیں سوچتا لیکن ہم انسان تو شعور رکھتے ہیں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اس سائنو بیکٹیریا کی طرح ہم بھی شاید اپنے شعور کی موجودہ سطح پر اس وقت خدا کی اس کائنات میں اپنا کردار شاید سمجھ نہیں پائیں اور کائنات کے اس گرینڈ ڈیزائن میں ہم انسانوں کا کردار بھی ہمارے شعور کی موجودہ سطح سے کچھ اوپر کی چیز ہو ۔ فرق صرف یہ ہے کائنات کی ہر شے خدا کی طرف سے اسے دی گئی پروگرامنگ پر چلنے پر پابند ہے جب کہ ہم انسانوں کو خدا نے اختیار و ارادہ کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔

اب یہ ہم انسانوں پر ہے کہ ہم اس کائنات اور اس زمین پر اپنی کیسی چھاپ چھوڑ کر جاتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو خدا ہی جانے کہ کس کے اعمال اسے حیات ابدی دلاتے ہیں اور کس کے اعمال اسکے لئیے ابدی خسارے کا سبب بنتے ہیں لیکن جینٹیکس سے لیکر سائیکالوجی تک کے علوم یہ بتاتے ہیں کہ ہر انسانی بچہ اپنی پشت پر کچھ وراثتی اثرات کا بوجھ لاد کر لاتا ہے جس میں اسکے Genes جینز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اور وہ زندگی کے اکثر و بیشتر فیصلے انہی جینیاتی اور وراثتی اثرات کے تابع رہ کر کرتا ہے جیسے باپ جیسا غصہ رکھنا ، مجرمانہ ذہنیت یا مثبت سوچ ، حتی کہ شوگر اور اس جیسی کئی بیماریاں نسلوں تک منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

خدا ہر ماں اور باپ کو یہ اعزاز دیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ایسی پرورش کریں کہ انکی آنے والی نسلیں انسانوں کو فائدہ پہنچائیں ۔ اور اسکے لئیے کوئی بہت مشہور یا بڑا آدمی بننا ہی ضروری نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننا ضروری ہے ۔ ہر باپ اپنی اولاد کا پہلا ہیرو اور پہلا آئیڈیل ہوتا ہے ۔ آپ کےاچھے برے اعمال اور فیصلے نہ صرف آپکی اولادبلکہ آنے والی نسلوں اور قوموں تک متاثر کرسکتاہے ۔ کسے پتہ کہ کسی ان پڑھ کا اپنے خون جگر سے بچوں کو تعلیم دلوانا بعد میں اسکی نسل میں کسی آئن اسٹائن کی پیدائش کا سبب بن جائے ۔

میرے والد بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے لیکن انہوں نے اپنی یتیمی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اپنے پیروں پر بہت جلد ہی کھڑے ہوگئے خود تو پڑھ لکھ نہیں پائے لیکن مجھے انہوں ماسٹرز تک تعلیم دلائی اور اس طرح اپنی برسوں سے چلی آرہی فیملی Tree کے Gene میں تعلیم کا ٹانکا لگا کر اور اپنے اچھے کردار و عمل سے ہماری اچھی نگہداشت اور پرورش کرکے اپنی آنے والی نسلوں کے Genes کو آپ گریڈ کر گئے ۔ ہمارے باپ کا اتنا ہی احسان کم نہیں کہ اس نے ہمیں اچھے برے کی تمیز صرف الفاظ سے نہیں اپنے عمل سے بھی دکھائی ۔ مجھے یقین ہے کہ خدا نے جو کام بحیثیت انسان انکے حوالے کیا تھا وہ انہوں نے بخوبی پورا کیا ۔ آج وہ اپنے رب کے پاس خوش و خرم ہونگے ۔

زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر، مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو تیرا
آسماں تیری لحد پے شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.