کیا انسان واقعی چاند پر گیا ہے تحریر اصغر علی
کیا انسان واقعی چاند پر گیا ہے
16 جولائی 1969 کو امریکی خلائی سٹیشن کینیڈی اسپیس سینٹر سے اپولو 11 تین خلا بازوں کو لے کر خلا کی جانب روانہ ہوا وہ چند دن بعد یہ خلائی شٹل چاند کی زمین کو چھو چکی تھی نیل آرمسٹرانگ پہلے آدمی تھے جنہوں نے چاند پر پہلا قدم رکھا اس مشن میں نیل آرمسٹرانگ کے ساتھ بز ایلڈرن اور مائیکل کولن بھی شامل تھے بز ایلڈرن وہ دوسرے انسان تھے جنہوں نے چاند کی سطح کو چھوا تھا جہاں دنیا میں اس کارنامے کو بہت زیادہ سراہا گیا یا اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر بتایا گیا وہاں پر اس کو فیک کہنے والے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی سب سے پہلے ایک امریکہ کے ہیں نیوی کے افسر بل کسنگ نے 1976 میں ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے اس پر کافی اعتراضات اٹھائے اس کے بعد انیس سو اسی میں ایک اور شخص نے اس سارے مشن کو ایک ایک فلم قرار دیا اور کہا کہ یہ سارا کا سارا ایک سٹوڈیو میں فلمایا گیا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس طرح کی فیک نیوز بہت جلدی پھیلتی ہہیں تو یہ نیوز بھی بہت جلدی پھیل گئی بھی اور لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ امریکہ نے ناسا کے ساتھ مل کر یہ ڈرامہ رچایا ہے چاند پر اترنے کے مطابق ان چہ مہگوئیوں سے ہٹ کر کچھ ایسے ثبوت بھی ملتے ہیں جسے دیکھ کر آج کا انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ واقعی انسان چاند پر گیا ہے تو ان میں سے چند ایک ثبوت یہ ہیں انسان کا چاند پر پہنچنے کا پہلا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کے اپولو 11 مشن جب چاند سے واپس آیا تو چاند کی سطح سے 22کلو مٹی اور پتھر اپنے ساتھ لایا اس کے بعد جانے والے اور بھی مشن اس طرح کے نمونے ساتھ لاتے رہے چاند پر جانے کا دوسرا ثبوت یہ پیش کیا جاتا ہے کے اپولو 11 آپولو 14 اور اپولو 15 مشنز جب چاند کی سطح سے واپس آنے لگے تو خلابازوں نے چاند کی سطح پر ریکٹر و ریفلیکویو لگا دیے تھے اسی طرح کی ڈیوائسز 1973 میں سوویت یونین کی جانب سے بھیجے جانے والے مشن رونا سیونٹین اور رونا 18 نے بھی چاند کی سطح پر نصب کی تھی دراصل یہ ڈیوائس ایک آئینہ نما ڈیوائس تھی جو زمین سے بھیجے گئے عکس کو اپنے اندر محفوظ کرتی ہے چاند کے اترنے کا تیسرا بڑا ثبوت یہ ہے کیا جاتا ہے ہے کہ انیس سو انہتر سے لے انیس سو تہتر تک ٹھیک کامیاب مشن اتارے گئے یہ تمام مشن چاند پر مختلف مقامات پر اترے تھے خلا باز وہاں پر کئی کئی گھنٹے رہے اور چاند گاڑی پر بیٹھ کر چاند مختلف حصوں کا مشاہدہ کرتے رہے ان گاڑیوں کے پہیوں کے نشان آج بھی چاند کی سطح پر موجود ہیں اگر آپ کے پاس ایک اچھی سی دوربین ہے یا ایک اچھی سی سیٹلائٹ ہے تو آج بھی زمین سے بیٹھ کر آپ چاند کی سطح پر گاڑیوں کے ٹائروں کے نشان دیکھ سکتے ہیں ان تمام ثبوتوں کے باوجود ناصح کے چاند پر اترنے پر بہت زیادہ اعتراضات پائے جاتے ہیں سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اگر چاند کی سطح پر پر اب و ہوا نہیں ہے تو وہاں لگائے جانے والا امریکہ کا جھنڈا کیسے لہرا رہا ہے اس میں امریکہ نے کہا کہ جھنڈے کے اوپری حصے میں ایک راڈ لگا ہوا ہے جو جھنڈے کو سیدھا رکھنے کے لئے ہے اور نیچے پڑے ہوئے بل اس لیے لیے سیدھے نہیں ہوسکے کہ وہاں پر آب و ہوا نہیں ہے ہے اور یہی وجہ ہے کہ کہ پرچم کے بل سیدھے نہیں ہو سکے اور اسی حالت میں پرچم آپ کو نظر آرہا ہے دوسرا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ چاند کی سطح پر کوئی آب و ہوا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اوپر بادل ہوتے ہیں تو کسی بھی تصویر میں جو چاند کے اوپر کھینچی گئی ہے ستارے کیوں نہیں نظر آ رہے تو اس پے سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سورج کے روشنی چاند پر پر بغیر رفلیکٹ ہوئے سیدھی پڑتی ہے اس لیے لیے وہاں پر کھینچی ہوئی تصویر میں میں ستارے نظر میں آ رہے اور وہ تمام تصویریں دن کے ٹائم کی ہے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ناسا آج سے پچاس سال پہلے اگر چاند پر جا سکتا ہے تو آج اتنی جدید ترین ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود وہ چاند پر کیوں نہیں جاتا اس کا جواب ناسا اس طرح دیتا ہے 1969 سے 1972 تک ناسا کی جانب سے سات مشن چاند پر بھیجے گئے ان میں سے چھ مشن چاند کی سطح پر کامیابی سے اترے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دور امریکہ اور روس کے درمیان خلائی جنگ کا دور تھا تھا کہ کون پہلے خلا میں جاتا ہے اور کون پہلے چاند پر جاتا ہے ہے خلا میں جانے کی جنگ روس جیت گیا اور چاند پہ جانے کی جنگ امریکہ چاند کی جنگ جیتنے کے بعد امریکہ کے پاس کسی قسم کا کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ ایک دفعہ پھر چاند پر اربوں ڈالر خرچ کر کے جائے جو لوگ یہ کالم پڑھ رہے ہیں ان سے میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کو کیا لگتا ہے کیا واقعی امریکہ ناسا چاند پر گیا یا پھر یہ سب بچایا گیا ایک ڈرامہ تھا
Written by Asghar Ali
Twitter id @Ali_AJKPTI
T