عام انتخابات،لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل،انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہونگے،چیف جسٹس

sc

سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،جسٹس سردار طارق مسعود اور منصور علی شاہ کا حصہ تھے،الیکشن کمیشن کے وکیل روسٹرم پر موجود تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ کیا جلدی تھی اس وقت سب کو آنا پڑا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف کے عمیر نیازی نے آر او کے فیصلے کو چیلنج کیا، الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے تو 8 فروری کو الیکشن کرانے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوشش ہے کہ الیکشن کروا دیں، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں آپ نے کرانے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری فلائیٹ میس ہوئی کیسے مداوا کریں گے،بحرکیف کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آر اوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا،تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جس پر اسٹے ملا ،ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ درخواست گزار کیا چاہتے ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں، درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جوڈیشل افیسر فراہم کرنے کے خط کا جواب ہی نہیں دیا ،ہماری پہلی ترجیح تھی کہ عدالتوں سے سٹاف لیا جائے لیکن ہائی کورٹس نے انکار کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی‌نے کہا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائی کورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں، الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا، ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا،عمیر نیازی کی درخواست سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ انہوں نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا کیا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت فئیر الیکشن کرائے جائیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آرٹیکل 218 تھری میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات فئیر نہیں ہو سکتے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 50 اور 51 چیلنج کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کا افسران اپائنٹ کرنے کا حق کالعدم قرار دیا جائے،پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کچھ تھکے ہوئے ہیں، اسٹیپ بائے اسٹیپ بتائیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں فیصلہ کس نے دیا؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی نے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب لارجر بینچ کو ہیڈ کون کررہا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی مائی لارڈ وہی آنر ایبل جج،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ ایک جج جب معاملہ لارجر بنچ کے لئے بھیج رہا ہےپھر ساتھ آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟عدالت نے استفسار کیا کہ ڈی آر اوز سارے ڈپٹی کمشنرز ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی! سارے ڈپٹی کمشنرز ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس میں پک اینڈ چوز تو نہیں ؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نو، نو ، یہ پوسٹڈ ہیں، ہم نے پک اینڈ چوز نہیں کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص آتا ہے اور وہ پورے پاکستان کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کردیتا ہے ؟لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست کا مقصد بظاہر الیکشن نہ کرانے کےلئے تھا،ہم بہت کلیئر ہیں، ہم نے آپ سے کہا تھا ہم آپ کا کام کرائینگے، میں حیران ہوں عدلیہ سے ایسے آرڈر پاس ہو رہے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ یہ بتائیں آپ نے ٹریننگ کیوں روکی، نوٹیفکیشن معطل ہوا، ٹریننگ تو نہیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لئے تھے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں،اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کئے گئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عمیر خان نیازی کون ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کل بلوچستان میں پٹیشن چلی جائے، وہاں پنجاب کے لوگ پٹیشن دیتے ہیں، سندھ والے خیبرپختونخوا میں جا کر پٹیشن دیتے ہیں، یہ بہت حیران کن ہو گا، ایسے تو کوئی کل کو آ کر کہے کہ کہ عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا کریں گے،عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت کیلئے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جاکر پورے ملک میں حکم جاری کردیا، سپریم کورٹ نے انتخابات کا حکم دیا ہائیکورٹ نے کیسے مداخلت کی؟ درخواست گزار نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار کا مسئلہ یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنرز نے ہمارے خلاف ایم پی اوز کے آرڈر کئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عمیر نیازی کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے،ہائی کورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے، کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کیخلاف رٹ جاری کی ہے؟ کیا توہین عدالت کے مرتکب شخص کو ریلیف دے سکتے ہیں؟کیوں نہ عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟کیا عمیر نیازی وکیل بھی ہے یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں،

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کیخلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیڈول آج دینگے یا نہیں،الیکشن شیڈول کب جاری کریں گے؟ کہاں ہے شیڈول ؟ کچھ تو بنایا ہوگا؟ ابھی تک جاری کیوں نہیں ہوا؟ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ کےبعد انتخابات کا شیڈول جاری کریں گے،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ پہلے ٹریننگ کرینگے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رات کو ٹریننگ کروا دیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شیڈول آج دینگے یا نہیں، یا تو بتائیں یا سب کو بلالیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپکو کو ڈی آر اوز اور آراوز کی ضرورت تو آگے جا کر ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے پتہ نہیں شیڈول کیوں روک دیا؟ٹریننگ بلاوجہ کیوں روکی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟ الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ عدالتیں نوٹیفکیشن معطل کریں تو متعلقہ ادارہ معطلی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری کرتا، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ افسران کو الیکشن کمیشن نے حکم دینا ہوتا ہے،

سپریم کورٹ نے حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا،سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا 13 دسمبر کا حکمنامہ غیر قانونی قرار دے دیا،حکمنامہ میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 13 دسمبر کے حکم کی خلاف اپیل دائر کی گئی،سپریم کورٹ میں انتخابات کیس کرنے والوں کو ہائی کورٹ میں فریق بنایا گیا، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 غیرآئینی قرار دینے کی استدعا تھی، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر آٹھ فروری کی تاریخ مقرر کی، تمام فریقین آٹھ فروری کی تاریخ پر متفق تھے،وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، انتخابات کے انعقاد کیلئے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہائی کورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں،وکیل کے مطابق ہائی کورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈیول جاری کرنا ممکن نہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل کے مطابق گزشتہ انتخابات سے آج تک کسی نے یہ شقیں چیلنج نہیں کیں،سجیل سواتی کے مطابق ہائی کورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے، وکیل کے مطابق کیس لارجر بنچ کو بھیجتے ہوئے نوٹیفیکیشن معطل کیا گیا،

پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی عدالت میں پیش ہوئیَں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھو رہے ہیں مداخلت نہ کریں، آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں،آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ وکیل نہیں ان کا بولنا نہیں بنتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دینگے،

سپریم کورٹ نے حکمنامہ میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 1011 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا،ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں، ہائی کورٹ نے اپنے علاقائی حدود سے بڑھ کر حکم جاری کیا،عدالت نے استفسار کیا کسی ریٹرننگ افسر کیخلاف درخواست آئی تھی؟ الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی،عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا،عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ احکامات کا علم ہونا چاہیے تھا،بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو نوٹس جاری کر دیا،سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو آر اوز ڈی آر اوز سے متعلق درخواست پر کارروائی سے روک دیا،اور کہا کہ لاہور ہائی کورٹ مزید کاروائی نہ کرے،انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے،

سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا،عدالت نے الیکشن کمیشن کو فوری انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابات کا شڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا،سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج باقر نجفی نے مس کنڈکٹ کیا. آئندہ کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش نہ کرے, الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذ مے داریاں جاری رکھے،

عمیر نیازی کو نوٹس جاری، الیکشن کمیشن آج ہی شیڈول جاری کرے،لاہور ہائیکورٹ درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کریگی،سپریم کورٹ

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تین رکنی بنچ کا حصہ نہیں بنے،جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ اور مصروفیت تھی، جسٹس منصور علی شاہ کو سینئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے،یہ وقت شفافیت اور احتساب کا ہے،جو بنچ یہ مقدمہ سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی،اب میں اکیلے بنچ تشکیل نہیں دے سکتا،

واضح رہے کہ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کی ملاقات ختم ہونے کے بعد،الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی،الیکشن کمیشن نے اپیل میں لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی کورٹ روم نمبر ایک میں عملہ پہنچا،سپریم کورٹ کے بند دفاتر بھی کھول دیے گئے تھے، درخواست وصول کرنے والا عملہ بھی پہنچ چکا ہے،،الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ پہنچ گئی، سیکرٹری الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے،اس موقع پر صحافیوں کے سوال کے جواب میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ 8فروری کو انتخابات سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، درخواست تیار کرلی ہے،کچھ دیر بعد سپریم کورٹ میں دائر کردیں گے،جسٹس منصور علی شاہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے،سپریم کورٹ کے کمرہِ عدالت نمبر ون میں تین کرسیاں لگا دی گئی ہیں،

اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئےہیں، صحافی بھی کوریج کے لئے سپریم کورٹ میں موجود ہیں، اسلام آباد سے صحافی اعزاز سید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ "سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں اور خلائی مخلوق کی بڑی تعداد کس بے چینی کا اظہار کررہی ہے؟”

گزشتہ روز خبریں سامنے آئی تھیں کہ الیکشن کمیشن لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گا جسکی الیکشن کمیشن نے فوراً سختی سے تردید کر دی۔اور کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ نہیں کیا ،تا ہم آج الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے سےیوٹرن لیا اور آج سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے، الیکشن کمیشن پولنگ ڈے سے 54 روز قبل انتخابی شیڈول جاری کرنے کا پابندہے، اگر آٹھ فروری کو پولنگ ہو گی تو اس حساب سے الیکشن کمیشن کو کل ہر حال میں انتخابی شیڈول جاری کرنا پڑے گا،انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54واں دن بنتا ہے، اگر کل الیکشن شیڈول جاری نہ ہو سکا تو الیکشن لیٹ ہو سکتے ہیں،

ن لیگی رہنما عطا تارڑ ، خواجہ سعد رفیق نے حلقہ بندیوں کے حوالہ سے بھی درخواست دائر کی تھی، لاہور ہائیکورٹ نے حلقہ بندیاں ن لیگ کی درخواست پر کالعدم قرار دی ہیں، آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی کوہاٹ کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے ہیں، ایسے میں ان حلقوں میں حلقہ بندیوں کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن کو کرنا ہے، جب تک حلقہ بندیوں کا فیصلہ نہیٰں ہو گا الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں؟

آج رات تک سپریم کورٹ سے کوئی نہ کوئی فیصلہ آئے گا ،مظہر عباس
سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے مسئلے چل رہے ہیں ، الیکشن کمیشن میں کیس چل رہا ،لوگ گرفتار ہو رہے ،پی ٹی آئی کو اس وقت الیکشن سوٹ نہیں کرتے ، اب اگر الیکشن وقت پر ہوتے ہیں پی ٹی آئی کے علاوہ سب کو سوٹ کرتے ہیں، پی ٹی آئی مشکلات کی وجہ سے ابھی الیکشن کی ریس میں نہیں ہے،الیکشن لیٹ ہو گاتو سوال تو ہو گا، آئینی سوال ہو گا، آپکا سینیٹ مارچ میں آدھا خالی ہو رہا ہے، یہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے،تحریک انصاف کے لئے امیدوار تلاش کرنا پھر پولنگ ایجنٹ ہر بوتھ کے لئے مسئلہ بن چکا ہے، آج رات تک سپریم کورٹ سے کوئی نہ کوئی فیصلہ آئے گا کیونکہ چیف جسٹس نے واضح کہا تھا کہ کوئی ابہام پیدا نہ کیا جائے، اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ابہام پیدا ہو گیا ہے

کسی بھی ادارے کی غیر ضروری رخنہ اندازی الیکشن میں تاخیر کا باعث بنے گی۔اسحاق ڈار
ن لیگی رہنما، سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد آئینی ادارہ ہے ۔ملک میں الیکشن کروانا صرف الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے ۔کسی بھی ادارے کی غیر ضروری رخنہ اندازی الیکشن میں تاخیر کا باعث بنے گی۔ملکی حالات اور آئین کا تقاضا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں۔ مسلم لیگ (ن) انتخابات مقررہ وقت پر ہونے کی مکمل حمایت کرتی ہے

الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو تاحال لاہور ہائیکورٹ کے حکمنامے کی نقل ہی مل سکی ہے، الیکشن کمیشن کے رجوع کے باوجود لاہور ہائیکورٹ نے تاحال حکمنامہ کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کی،

Comments are closed.