دنیا کے مختلف ممالک میں قدیم شہر موجود ہیں ہر شہر کی اپنی تہذیب و ثقافت تہوار اور طرز تعمیر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے شہروں میں ممتاز ہوتا ہے اسی طرح پاکستان کا قدیم ترین شہر لاہور ہے جس کی تاریخ کم و بیش 3000 ہزار سال قبل کی ہے اسے ایک ہندو راجہ رام چندر کے بیٹے لوہ چندر نے دریائے راوی کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر آباد کیا تھا-اس کا پہلا اور ابتدائی نام لوہ پور تھا -اس کا نام بدلنے کے بعد لاہور ہوا-
لاہور میں موجود بہت سی قدیم عمارتیں سلطنت مغلیہ کی یادگار ہیں شہرلاہور کی تعمیر کچھ اس انداز میں کی گئی کہ اس کے اطراف کاروباری مراکز بنائے گئے اور وسط میں رہائشی علاقے آباد ہوئے ہر بازار میں محلے محلوں میں کوچے اور پر کوچے میں تنگ اور تاریک گلیوں کی گزر گاہیں بنائی گئیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ تمام کوچے اور محل ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں-
ویڈیو سکرین شاٹ
شہر لاہور میں داخل ہونے کے لئے 13 راستے بنائے گئے یہ دروازے دن میں لاہور میں داخل ہونے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اور رات کو بند کر دیئے جاتے تھے پہریدار پہرہ دیا کرتے تھے اور جنگی حالات مین شہر کا دفاّ انہی دروازوں سے کیا جاتا تھا-شہر کو ہنگامی حالاتوں سے بچانے کے لئے یہ دروازے اور فصیل اہم کردار اد کرتے تھے ان دروازوں کے نام کچھ یوں ہیں-
ویڈیو سکرین شاٹ
مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازی، دہلی دروازہ ، اکبری دروازہ ، موچی دروازہ ، شاہ عالم دروازہ، لوہاری دروازہ، موری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹیکسالی دروازہ ، روشنائی دروازہ
یہ تمام دروازے لاہور کے ڈیفنس کے لئے بنائے گئے تھے جیسے کوئی جنگی حالات ہو ں یا مسئلہ ہو تو دروازوں کو بند کر کے فصیلوں سے دشمن کے حملوں کو روکا جا سکے اور ان سے مقابلہ کر کے منہ توڑ جواب دیا جا سکے-
ویڈیو سکرین شاٹ
دہلی دروازہ:
اس میں سب سے پہلے دہلی دروازہ ہے یہ چار سو سال پُرانا دروازہ ہے اور مغلوں کے دور کا بنا ہوا ہے مغلوں کے ٹائم میں یہ سب سے مصروف گزرگاہ ہوا کرتی تھی اور دہلی گیٹ کو دہلی گیٹ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا منہ دہلی کی طرف ہے اور اسیہلی میں لاہوری گیٹ ہے اسے اس لئے لاہوری گیٹ کہتے ہیں کیونکہ اس کا رُخ لاہور کی طرف ہے- دہلی دروازے سے شاہی وفد لاہور میں داخل ہوتا تھا-اس دروازے کے عقب میں شاہی حمام اور وزیر خان مسجد بوجود ہے
ویڈیو سکرین شاٹ
وزیر خان مسجد کی تعمیر دسمبر 1461 میں سات سال کی طویل مدت کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچی مسجد وزیر خان مغلیہ حکومت میں تعمیر کی گئی اب تک کی نفیس کاشی کاکانسی کار کی خوبصورت مسجد ہے- یہ مسجد بادشاہی مسجد کی تعمیر سے 32 سال قبل تکیمیل کو پہنچے
ویڈیو سکرین شاٹ
کشمیری دروازہ:
کشمیری دروازے کا نام اس لئے ہے کیونکہ اس کا رُخ کشمیر کی طرف ہے اس دروازے کے اندر کی جانب لاہور کا ایک اندرون لاہور کا بہت بڑا بازار ہے جو کشمیری بازار کے نام سے منسوب ہے-
ویڈیو سکرین شاٹ
اس میں ایک سنہری مسجد بھی واقع ہے یہ مسجد 1750 میں تین خوبصورت سنہری گنبدوں کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی-
ویڈیو سکرین شاٹ
شیرانوالہ دروازہ:
یہ دروازہ بھی اپنی حیرت انگیز معلومات رکھتا ہے اس دروازے پر حفاظت کے لئے شیروں کو پنجرے میں رکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے کوئی بیرونی مداخلت نہیں کرتا تھا اس کو مغل کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا اس کا پُرانا نام خطری دروازہ بھی تھا-
ویڈیو سکرین شاٹ
مستی دروازہ :
یہ شاہی قلعہ کے بالکل عقب میں واقع ہے اس دروازے کو خوشی کا دروازہ کہا جاتا ہے اس لئے اس کا نام مستی دروازہ رکھا گیا اس دروازے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں جوتوں کا وسیع کاروبار ہے جس میں ثقافتی اور غیر ثقافتی جوتوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے-
ویڈیو سکرین شاٹ
یکی دروازہ:
یکی دروازہ ایک صوفی پیر زکی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے یکی پیر نے مغلیہ حملہ آوروں سے شہر لاہور کو محفوظ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا پہلے اس دروازے کا نام زکی تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نام بدل کر یکی دروازہ پڑ گیا-
موچی دروازہ:
موچی دروازہ بھی اپنا وجود کھو چکا ہے مگر اس دروازے کے نام میں تضاد پایا جاتا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ا سدروازے کے پاس موچی بیٹھا کرتے تھے اور جوتے ٹھیک کرتے تھے اس وجہ سے اس کانام موچی دروازہ پڑ گیا تھا کوئی کہتا ہے کہ اس کے محافظ کا نام موچی تھا اس لئے اس کا نام موچی رکھ دیا گیا تھا-
ویڈیو سکرین شاٹ
شاہ عالم دروازہ:
یہ بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم کے نام سے منسوب ہے ان کی وفات کے بعد اس دروازے کا نام شاہ عالم دروازہ رکھ دیا گیا تھا-اس دروازے کے اندرون جانب بہت بڑا رہائشی اور کمرشل علاقہ اور بہت بڑے مارکیٹ شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے –
ویڈیو سکرین شاٹ
لوہاری دروازہ:
لوہاری دروازہ ھی تاریخی دروازوں میں سے ایک ہے جو افراد تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس دروازے کا نام لوہار سے منسوب کیا گیا ہے –
ویڈیو سکرین شاٹ
موری دروازہ:
موری دروازہ لاہور کے تمام دروازوں سے چھوٹا دروازہ ہے اور یہ لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان میں واقع ہے اس دروازے کو شہر سے ضائع شدہ سامان کو باہر لے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا-
ویڈیو سکرین شاٹ
بھاٹی دروازہ:
شہر کے مغرب میں واقع ہے یہ دروازہ ان چھ دروازوں میں سے جو بھی تک سلامت ہیں اس کو چیلسی دروازہ بھی کہا جاتاہے – اس کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کے اندر کی جانب بہت لذیذ پکوان ملتے ہیں بھاٹی گیٹ سے باہر حضرت داتا علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کا مزار واقع ہے علاوہ ازیں شاعر مشرق علامہ اقبال بھی 1901 سے 190 تک بھاٹی دروازے کے قریب مکین رہے-
ویڈیو سکرین شاٹ
ٹیکسالی دوارزہ:
ٹیکسالی دروازہ بھی مغلوں کے دور عہد میں تعمیر کیا گیا تھا یہاں ایک بہت بڑا جوتوں کا بازار بھی ہے جو شیخوپورہ بازار کے نام سے مشہور ہے اس دروازے کے اندر کی جانب بہت لذیذ پکوان کی بہت سی اقسام ملتی ہیں بادشاہی مسجد اس کے قریب واقع ہے اور لاہور کا حسن جسے المعروف شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے وہ بھی اس کے قریب واقع ہے-
ویڈیو سکرین شاٹ
روشنائی دروازہ:
روشنائی دروازہ اپنے نام سے ہی ثابت کرتا ہے کہ یہ روشنیوں کا دروازہ ہے اس دروازے کو حکمرانوں اور دوسرے شاہی افراد کے لئے مغلیہ دور حکومت میں اور سکھ دور عہد میں گزر گاہوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا اس دورازے کو راہگیروں کو راستی دکھانے کے لئے روشن کیا جاتا تھا-
لاہور کے ان تمام دروازوں میں لاہور کی ایک منفرد ثقافت موجود ہے مگر گزرتے وقت کے ستم اور اتظامیہ کی عدم توجہی لاہور کی تاریخی پہچان ان دروازوں کا ذکر تو اکثر سننے جکو ملتا یہے مگر یہ دروازے نہیں ان میں کئی دروازے تو سرے سے اپنا وجود کھو چکے ہیں جو ابھی موجود ہیں وہ بھی خود پر گزرنے والی داستانیں بیان کر رہے ہیں کیونکہ اب اگر کوئی اندرون شہر جائے تو اسے جابجا ٹوٹی سڑکیں گلیاں تجاوزات کی بھر مار ٹریفک کا بے ہنگم شور اور کچھ ایسے نشان ملیں گے جنس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ئہاں کبھی کوئی ضخوبصورت دروازہ یا حویلی ہوا کرتی تھی حویلیوں کی جگہ پلازوں اور جابجا تجاوزات نے اندرون شہر کی گزر گاہوں کو تنگ کر دیا ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس خزانے کو بچانے کے لئے کسی نھی بھی کوشش کی نہیں کی کئی حکومتیں آئیں یہاں سے لوگ منتخب ہوئے لیکن حالتیں سنورنے کی بجائے بگڑتی چلی گئیں ہمارے رارے رہنماؤں کو احساس ہی نہیں کہ تاریخی ورثوں کو بچانا کتنا ضروری ہے کیونکہ جو قومیں اپنے ورثے کی حفاظت نہیں کرتیں وہ ختم ہو جاتی ہیں قومی ورثے کی اس خستہ خالی نے ان دروازوں کے بیچ و بیچ بسنے والوں کوہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور بس رنگ سازوں اور کاروباوروں کی صدائیں سننے کو ملتی ہیں-