لاہور کے مسائل۔ تحریر: ڈاکٹر محمد عمیر اسلم

پطرس بخاری نے اپنے مضمون "لاہور کا جغرافیہ” میں لکھا کہ:
” کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدوداربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبہ کی سہولت کے ليے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔ “

بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتا ہوا رقبہ ایک ایسی کینسر نما بیماری ہے جو شہر لاہور کو لاحق ہو گئی ہے۔ جس سے نہ صرف لاہور کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے بلکہ بُہت سارے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اِسکی کچھ رونقیں کھو سی گئی ہیں۔

اگرچہ بُہت سارے مسائل ہیں جو لاہور کو لاحق ہیں لیکن چند چیدہ چیدہ مسائل مسائل میں درختوں کی کٹائی، ماحولیاتی تغیر، زیرِ زمین پانی کی کمی، وینس کی جھلک، ٹرانسپورٹ کی کمی، زرعی زمینوں کا کم ہونا، صحت اور تعلیم کی نا کافی سہولیات، اور معدوم ہوتے تہوار وغیرہ شامل ہیں۔
گزشتہ حکومتوں کے بر عکس اگرچہ موجودہ حکومت بہت سارے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے لیکن ان مسائل کو حل ہونے میں وقت لگے گا۔

درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی تغیر

گزشتہ کئی سالوں سے لاہور ماحولیاتی تغیر سے نبرد آزما ہے۔ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی، شدید گرمی اور فاگ سے بہت سارے مسائل نے جنم لیا ہے۔ ہر سال سینکڑوں افراد گرمی کی شدت سے بیمار ہو کر ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح فضائی آلودگی اور فاگ کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں، گلے اور آنکھوں کا انفیکشن، سانس لینے میں دشواری،دمہ اور کھانسی وغیرہ بھی پریشان کن ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے لوگوں کے پھیپھڑے خراب ہو رہے ہیں۔
ان مسائل کی بڑی وجوہات میں دھواں چھوڑتی گاڑیاں، اینٹوں کے بھٹے، فیکٹریوں میں ربڑ کا استعمال اور درختوں کی کٹائی شامل ہیں۔
اگرچہ موجودہ حکومت نے تقریباً تمام بھٹے جدید ذگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر دیے ہیں اور آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت پاکستان نے گاڑیوں کے لیے اچھی کوالٹی کا ایندھن (euro 5) منگوانا شروع کیا ہے، لیکن دوسری وجوہات پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔
بڑھتی ہوئی گرمی اور آلودگی کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2017 تک لاہور کے 75٪ درخت کاٹ دیے گئے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف بارشوں میں کمی ہوئی بلکہ گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہوا۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے فضائی آلودگی اور فاگ جیسے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ افسوس صد افسوس، باغوں کے شہر لاہور سے درخت ہی کاٹ دیے گئے ہیں۔
موجودہ حکومت نے اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے جاپانی تیکنیک پر شہر بھر میں 50 میاواکی جنگل لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے جو کہ اگرچہ نا کافی ہے لیکن حکومت کی سنجیدگی کو ضرور ظاہر کرتا ہے۔
لاہور لبرٹی مارکیٹ میں لگایا گیا مياواکی فوریسٹ 8 کنال رقبے پر مشتمل ہے اور اُس میں 10 ہزار سے زائد درخت/پودے لگائے گئے ہیں۔
درختوں کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے بارشوں میں بھی کمی آئی ہے۔ بارشوں میں کمی اور زیرِ زمین سے مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے مستقبل میں پانی کا بحران نظر آ رہا ہے۔ جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے وہیں زیرِ زمین پانی کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات کا اعلان کیا ہے، اس ضمن میں راوی ریور پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں، لیکن یہ منصوبے پورے ہونے میں وقت لگے گا۔
لاہور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، یہ پیرس تو نہ بن سکا لیکن ہر سال وینس کا نظارہ ضرور کرواتا ہے۔ سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے ہر سال مون سون کی بارشوں میں لاہور کو سیلابی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں ایک طرف پانی کی کمی ہے وہیں ہر سال بارشوں کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانے اور سیلابی صورتحال کا تدراک کرنے کے لیے موجودہ حکومت سیوریج کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین 10 سے زائد واٹر سٹوریج ٹینک بنا رہی ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ کتنے مددگار ثابت ہوں گے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت

ایک وقت تھا کہ لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ پر پورے شہر میں کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب لاہور کا سب سے بڑا بس اسٹیشن تھا جہاں سے پورے لاہور کے لیے بسیں چلتی تھی۔ لیکن یہ شعبہ بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ 2009 میں پنجاب حکومت نے جہاں دیگر کئی کمپنیاں بنائی وہیں لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی بھی بنائی گئی۔
لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی نے ابتدا میں 400 ائیر کنڈیشنڈ بسوں کے ساتھ تقریباً 19 بڑے روٹس اور کچھ چھوٹے روٹس پر کام کا آغاز کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بسوں کی تعداد میں کمی ہوتی گئی۔ افسران کی غفلت کی وجہ سے کمپنی 2017 میں سروس آپریٹرز کے ساتھ ختم ہونے والے معاہدوں کی تجدید نہ کر سکی جس کی وجہ سے یہ کمپنی بند ہو گئی اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب۔
ریکارڈ کے مطابق 2014 سے مسلسل حکومت کو نئی بسوں کے لیے درخواست دی جاتی رہی لیکن کوئی کام نہ ہوا۔ اگرچہ لاہور میٹرو بس اور میٹرو ٹرین آپریشنل ہے لیکن ان کی سروس مخصوص روٹ پر ہے۔
اس وقت لاہور کی ٹرانسپورٹ کی سہولیات کو پورا کرنے کے لیے کم و بیش 1500 بسوں کی ضرورت ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت سروس بحال کرنے کے لیے کام کر رہی ہے لیکن ابتدائی طور پر صرف 300 بسیں فراہم کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے بلیو لائن اور پرپل لائن کے منصوبے جو کہ 2007 میں تجویز کیے گئے تھے فلحال کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔

لاہور کے گرد پھپھوندی کی طرح پھیلتی ہاؤسنگ اسکیمز بذاتِ خود ایک مسئلہ ہیں۔ زرعی زمینوں پر بننے والی ان سوسائٹیوں میں نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ بے ہنگم بھی ہیں۔ اِن کی وجہ سے پیدا ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ غذائی اجناس کی قلت ہے۔ ان زرخیز زمینوں پر پہلے سبزیاں، چاول، گندم اور دیگر غذائی اجناس کی کاشت کی جاتی تھی جو کہ شہر لاہور کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتی تھیں لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اب زرخیزی کی جگہ صرف بے ہنگم آبادی ہے۔

لاہور میں جہاں دیگر بُہت سے مسائل ہیں وہیں پر صحت کی نا کافی سہولیات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں کوئی نیا ٹرشری کیئر ہسپتال نہیں بنایاگیا، اگرچہ موجودہ حکومت نے لاہور میں 2 نئے ہسپتال بنانے کا آغاز کیا ہے، لیکن شمالی اور مشرقی لاہور میں کوئی بھی بڑا سرکاری ہسپتال نہ ہی موجود ہے اور نہ ہی عنقریب کسی کی امید ہے۔ ہسپتالوں میں جدید مشینری یا تو موجود نہیں اور اگر موجود ہے تو وہ خراب ہے۔
یہ اور ایسے بُہت سے دیگر مسائل ہیں جو کہ شہر لاہور کو لاحق ہیں، اگر ان مسائل کی تفصیل بیان کرنا شروع کی جائے تو ہر مسئلے کے لیے ایک علیحدہ آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے صرف ایسے پروجیکٹ شروع کیے گئے جو کہ ذاتی مشہوری کے لیے ضروری تھے، اگرچہ موجودہ حکومت نے ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن سے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کی سنجیدگی نظر آتی ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ منصوبے مکمل ہو کر کس حد تک ان مسائل کو حل کریں گے۔

Leave a reply