اسلام آباد (محمد اویس)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور وزارت توانائی کے درمیان چپقلش:ایسی وجہ کہ جان کرہرکوئی حیران ،اطلاعات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزارت توانائی کی طرف سے کراچی الیکٹرک کے ساتھ ہونے والے معائدے کی دستاویزات نہ دینے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت کو کے الیکٹرک سمیت تمام آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معائدے کمیٹی کو دینے ہوں گے تاکہ دیکھ سکیں کہ معائدے کیا تھے اور ان پر عمل درآمد بھی ہورہاہے کہ نہیں ۔کمیٹی نے تمام ڈیسکوز سے کرنٹ سے مرنے وزخمی ہونے والوں کی تعداد اور ان کو دیئے جانے والے معاوضے کی تفصیلات طلب کرلیں،

ذرائع کے مطابق حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ 24ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل ہوسکتی ہے جبکہ بجلی کی طلب 26ہزار میگاواٹ ہے، سرکلر ڈیٹ 2480ارب روپے تک پہنچ گیا ہے گذشتہ مالی سال 330ارب روپے اس میں اضافہ ہواہے۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاور ڈویژن سے پاور پلانٹ کی تنصیب کے وقت حکومت پاکستان اور آئی پی پیز کے مابین کئے گئے معاہدات کی تفصیلات، پاور ڈویژن سے مسلسل بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیٹ، کے الیکٹرک کی نجکاری کے حوالے سے کئے گئے معاہدے کی تفصیل، سیپکو ہیسکو اور کے الیکٹرک سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے واجب الاادا بلوں کی تفصیلات، این ٹی ڈی سی سے لاکھڑا کے لئے 220KV گریڈ اسٹیشن کی موجودہ صورتحال اور پیسکو سے درگئی میں 132KVگریڈ اسٹیشن کی تنصیب کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری پاور ڈویژن علی رضا بھٹہ نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1990کی ابتدائی دہائی میں جب بجلی کی قلت شروع ہوئی تو 1994میں پہلی بار وفاقی حکومت نے پالیسی بنائی جس میں پرائیویٹ سیکٹر پاور جنریشن پراجیکٹس شامل کئے گئے جس میں اگلے 25سال کیلئے 8فیصد سالانہ بجلی کی کھپت میں اضافے کا حساب رکھا گیا۔ پالیسی میں سائٹ اور ٹیکنالوجی کیلئے کمپنیوں کو اپنی مرضی کی شرط دی گئی۔اس پالیسی کے تحت 13پروجیکٹ لگے دو اس سے پہلے گئے تھے۔اور 25سے 30سال کے منصوبے تھے۔5677میگاواٹ کے پروجیکٹ تھے۔

2002میں نئی پالیسی آئی، نیپرا قائم کیا گیا اس کا قانون بھی بنایا گیا اور نیپرا کو ٹیرف مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا۔ نیپرا ریگولیشن بناتا اور حکومت نے رولز بنائے۔2002 کی پالیسی کے تحت15پروجیکٹ 3035میگاواٹ کے لگائے گئے۔ منصوبوں میں تھرمل گیس اور ہائیڈرل کے شامل تھے۔2006 میں نئی پالیسی لائی گئی جس میں قابل تجدید منصوبوں کی طرف گئے۔50,50میگا واٹ کے بھاگاس، سولر اور ونڈ کے پلانٹ لگائے گئے۔اس پالیسی کے تحت 38منصوبے جن کی استعداد 1876میگاواٹ تھی قائم کیے گئے یہ چھوٹے منصوبے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2015 میں فائنل پالیسی بنائی گئی جس میں بڑے منصوبے تھے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ پر فوکس کیا گیا۔ 8703میگاواٹ کے 7منصوبے لگائے گئے اس میں کول،آر ایل این جی کے منصوبے شامل تھے۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ باہر سے کوئلہ ایمپورٹ کر کے بجلی پیدا کی گئی۔ کچھ منصوبے ایسے تھے جو تھر سے نکلنے والے کوئلے سے بھی چلائے جاتے تھے۔ سینیٹر ذیشان خانزاہ نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے گئے مگروہ ابھی تک ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ان میں اضافہ بھی نہیں ہوا۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہاکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں قدرتی وسائل کو موثر انداز میں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ ہائیڈرل بجلی کے لئے بے پناہ استعداد موجود ہے۔ جس پر سیکرٹری پاور نے کہا کہ پانی سے بجلی بنانا آسان کام نہیں ہے ان منصوبہ جات پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے ان میں سرمایہ کاری کی ہے اگر ٹرانسمیشن دستیاب ہو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ مہمند،دیارمر بھاشا اور سکھی کناری بنارے ہیں۔پن بجلی کے منصوبوں میں وقت لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پن بجلی کے منصوبے وہاں زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں جہاں ٹرانسمشین لائن ہو۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر فدا محمد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 2028 تک 13161میگاواٹ ہائیڈرل کی استعداد کار آجائے گی۔اس وقت9435میگاواٹ موجودہ ہائیڈرل کی کیپسٹی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 24280میگاواٹ کل بجلی پیدا ہوئی ہے اور اتنی ہی طلب تھی۔لائن لاسسز سمیت 26ہزار میگاواٹ بجلی کی طلب تھی اور 4794میگاواٹ ہائیڈرل سے پیدا کی گئی تھی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین پاور پلانٹ بند ہیں اور لاکھڑا گزشتہ پانچ سال سے بند ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کچھ پاور پلانٹ جان بوجھ کر بند کیے گئے تھے۔ لاکھڑا پلانٹ مقامی کوئلے سے چلتا ہے۔کوئلہ موجود ہے۔ قائمہ کمیٹی نے کمیٹی اجلاس میں حکومت اور آئی پی پیز کے مابین کیے گئے معاہدات کی تفصیلات پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں تفصیلات طلب کر لیں۔چیئرمین کمیٹی نے جنکو ز کے تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔انہوں نے کہا کہ سیپکو کا چیئرمین کیسکو کا ممبرہے اور کیسکو کا چیئرمین سیپکو کا ممبر ہے اگر یہ صورتحال ہوگئی تو عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ کیا قابل لوگ ملک میں ختم ہو گئے ہیں۔

سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی نے کہا کہ وزیر پاور اور سیکرٹری پاور کی موجودگی میں اس معاملے کا مزید جائزہ لیا جائے۔ کمیٹی نے ایجنڈا موخر کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلسل بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیٹ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ آزادکشمیر میں بجلی کی بیلنگ اور ریکوری میں 35ارب روپے کا فرق ہے۔ایگریکلچر ٹیوب ویل کوئٹہ سرکلر ڈیٹ میں اضافہ کررہے ہیں۔کے الیکٹرک کی وجہ سے بھی سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہورہاہے۔2480ارب روپے سرکلر ڈیٹ جس میں گذشتہ سال 330ارب روپے کا اضافہ ہوا۔قائمہ کمیٹی نے کے الیکٹرک کا معائدہ نہ دکھانے پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 میں سرکلر ڈیٹ2411 ارب روپے کا تھا اور2019-20 میں 2061 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ تھا۔ سرکلر ڈیٹ میں اضافے کی وجوہات میں ان پیڈ سبسڈیز تاخیر سے ادائیگی پر آئی پی پیز کے انٹرسٹ، پی ایچ ایل مارک اپ، کے الیکٹرک کی جانب سے عدم ادائیگی،ڈیسکوز کے لاسسز اور ریکوریاں وغیرہ شامل ہیں۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ کے الیکٹرک کے معاملے کو کمیٹی علیحدہ دیکھے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دیگر ڈیسکوز کو بھی کیا پرائیوٹ کرنے کی کوئی تجویز ہے اگر ہے تو اس کی رپورٹ فراہم کریں ہم سے کے الیکٹرک ہی نہیں سنبھالی جا رہی۔سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 280 ارب اور وفاقی حکومت نے50 ارب روپے دینے ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری پاور نے کہا کہ کے الیکٹر ک کے حوالے سے وزارت خزانہ، پاور اور پیٹرولیم تین پارٹیاں شامل ہیں اور حکومت نے ثالث مقرر کر دیا ہے۔قائمہ کمیٹی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بجلی کے ادا نہ کیے گئے بلوں کی تفصیلات بارے آگاہ کیا گیا۔ سیپکو حکام نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 87 فیصد ریکوری وصول کر چکے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 64537 ملین کے بل بھیجے گئے جس میں سے 56340 ملین ادا کیے گئے اور14947 ملین بقایا ہیں جو وقت کے ساتھ ادا کر دیئے جاتے ہیں۔ہیسکو حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبائی حکومتوں کے ذمے9980 ملین جبکہ وفاقی حکومت کے ذمے 4534 ملین روپے واجب الاادا ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ادا کر دیئے جاتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں این ٹی ڈی سی سے لاکھڑا کے لئے 220KV گریڈ اسٹیشن کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کا پی سی ون منظور ہو چکا جس کی لاگت6.4 ارب روپے تھی۔ 2017-18 کی سیپکو رپورٹ کے مطابق پی ایم ایس رپورٹ میں علاقے کی زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ 1773 میگاواٹ تھی اور پی ایم ایس کی موجودہ رپورٹ کے مطابق علاقے کی طلب 1095 میگاواٹ بتائی گئی اس منصوبے کو 2024-25 میں مکمل کیا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا کہ کل کی مجموعی طلب606 میگاواٹ تھی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں خود سول انجینئر ہوں۔ پی سی ون کی منظوری کے بعد ٹینڈر ہونا چاہیے تھا نہ کہ دوبارہ رپورٹ لی جاتی۔بنیادی مسئلہ زمین کے حصول کا تھا اس کیلئے مدد کرنے کو تیار ہیں۔قائمہ کمیٹی نے منصوبے پر رواں مالی سال میں کام شروع کرنے کی ہدایت کر دی۔ پیسکو سے درگئی میں 132KVگریڈ اسٹیشن کی تنصیب کے حوالے سے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ 2017 کا منصوبہ ہے کب مکمل ہوگا۔ سی ای او پیسکو نے کہا کہ گرڈ اسٹیشن اپنے وسائل سے بنایا جارہا ہے اس کیلئے فنڈنگ نہیں ہے۔ سیکشن فور کر دیا گیا ہے۔ اسی سال زمین خرید لیں گے اور دسمبر2022 تک 20/26MVA پاور ٹرانسفارمر اور 2KM ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن ایکنک سے منظور ہو چکی ہیں۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ ان کے علاقے میں سب ڈویژن کیلئے ایک لائن مین ہوتا ہے وہاں بھرتی کرنی تھی مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ ملک بھر میں سٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔ پرائیوٹ لوگوں کو کام دیا جاتا ہے وہ کنڈا سسٹم کو پروموٹ کرتے ہیں۔ لوگوں سے ماہوار وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرتے۔ ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ تمام ڈیسکوز کو آگاہ کر دیا گیا ہے وہ اپنی ضرورت کے مطابق اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بھرتیوں کی منظوری حاصل کر سکتے ہیں۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں لوگوں کو میٹر لگانے کیلئے قائل کیا۔لوگ پرانے واجبات ایک ساتھ میں دینے کو تیار ہیں میٹر لگانے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ ہری پور کے علاقوں میں بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ میں نے میٹر لگانے کیلئے درخواست تو کھمبے اور بجلی کی تار کیلئے 15 لاکھ روپے حکومت نے وصول کیے۔ ٹرانسفارمر جلنے پر کئی کئی دن بجلی نہیں آتی۔ قائمہ کمیٹی نے لاڑکانہ میں بجلی چوری کو روکنے کیلئے عملے پر فائرنگ کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سی ای او نے کمیٹی کو بتایا کہ متعلقہ تھانہ پرچہ بھی درج نہیں کر رہا تھا۔ ڈی آئی جی کی مداخلت سے پرچہ درج کیا گیا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ملوث لوگوں کو جلد سے جلد گرفتار کرنے کی ہدایت کر دی۔ کمیٹی اجلاس میں جنکو کمپنی کے ایم ڈی کی تقرری کے حوالے سے دیئے گئے اشتہار پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہار سے لگتا ہے کہ کسی من پسند بندے کو نوازنے کیلئے اشتہار تیار کیا گیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے ہدایات دی کہ پہلے والے اشتہار کو ختم کر کے قانون کے مطابق دوسرا اشتہار دیا جائے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، سیف اللہ سرور خان نیازی، ذیشان خانزادہ، پرنس احمد عمر احمد زئی، حاجی ہدایت اللہ خان، بہرہ مند خان تنگی،محمد طلحہ محمود، ثنا ء جمالی کے علاوہ سیکرٹری توانائی علی رضا بھٹہ، ایڈیشنل سیکرٹری توانائی وسیم مختار، ایڈیشنل سیکرٹری توانائی مصدق اے خان اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

Shares: