لہور لہور اے . تحریر : عمران اے راجہ

0
67

کسی نے سچ کہا ہے "لہور لہور ہے، جن نے لہور نی تکیا او جمیا نئ ” ( لاہور لاہور ہے، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ یہ بات وہی جان سکتا ہے جس نے لاہور کو دیکھا ہو۔ لاہور کے اتنے رنگ اور چہرے ہیں کہ ان کو بیان کرنے کے لیے ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے ۔ یہاں کے رنگ، ثقافت، تاریخ، قدیم روایات، جدید ترقی کی چکا چوند، باغوں کی ہریالی اور پھولوں کی خوشبو، درختوں سے ڈھکی دو رویہ سڑکیں، پاکستانی ثقافت کی لذت لیے روایتی کھانے، ماضی کی داستان بیان کرتے اور نشان عبرت بنے مقبرے، چمکتے فرش والے مزارات، عظیم درسگاہیں اور زندہ دلان لاہور کی مہمان نوازی یہ سب چیزیں سیاحوں کو بار بار کھینچ کر یہاں کا رخ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ لاہور ایک شہر ہی نہیں ایک دیرپا احساس اور ایک ناقابل فراموش تجربہ بھی ہے۔ پاکستان کی ثقافت کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے لاہور کو دیکھنا ضروری ہے۔

شاہی قلعہ
سیاح جب لاہور میں قدم رکھتے ہیں تو سب سے پہلے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کا رخ کرتے ہیں۔ شاہی قلعہ مغلیہ فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ یہ جزوی طور پر اکبر نے تعمیر کیا تھا (1556-1605) اور اگلے تین شہنشاہوں نے اس میں توسیع کی۔ شاہی قلعہ میں دیوان عام، دیوان خاص، شیش محل قابل دید ہیں۔ شاہی قلعہ کا داخلی دروازہ بادشاہی مسجد کے سامنے ہے اور اسے "عالمگری گیٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1981 میں یونیسکو نے لاہور قلعہ کو عالمی ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے شامل کیا۔

بادشاہی مسجد
شاہی قلعہ لاہور کے مغرب میں بادشاہی مسجد واقع ہے۔ اسے لاہور کے مشہور مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہی مسجد مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے 1671 اور 1673 کے درمیان تعمیر کروائی۔ یہ مسجد مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار ہے ، یہ مغل عہد کی سب سے بڑی اور پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے۔ یہاں بیک وقت ایک لاکھ نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مسجد اور قلعے دونوں کو سنگ سرخ سے سجایا گیا ہے۔

مینار پاکستان
شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے قریب ہی مینار پاکستان واقع ہے. مینار پاکستان ، لاہور کی ایک تاریخی یادگار ہے۔ اسے پاکستان کا سب سے بڑا ٹاور سمجھا جاتا ہے۔ یہ ٹاور اس جگہ پر 1960 اور 1968 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا جہاں آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کو علیحدہ وطن کے حصول کے لیے قرارداد منظور کی تھی۔

مسجد وزیر خان
وزیر خان مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں شروع کی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1634 میں ہوا اور یہ 1641 میں مکمل ہوا۔ یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔ مغلیہ فن تعمیر اور کاشی کاری کے کام کی وجہ سے سیاح اس میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔

شالامار باغ
لاہور مغلوں کا شہر ہے ، اور شالامار باغ مغلوں کی ایک اور حسین یادگار ہے۔ فواروں، چشموں ، سنگ مرمر کے تالاب ، درختوں اور گھاس کے میدانوں سے سجا یہ باغ پاکستان کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ باغات کی تعمیر 1641 میں شہنشاہ شاہ جہاں کے دور میں شروع ہوئی ، اور یہ 1642 میں مکمل ہوئی۔ 1981 میں شالیمار گارڈن کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تحریر کیا گیا تھا.

والڈ سٹی
اندرون لاہور جسے اولڈ سٹی بھی کہا جاتا ہے ، لاہور کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شہر 1000 عیسوی کے قریب قائم کیا گیا تھا ۔ یہ درجنوں حکمرانوں اور کئی ادوار سے گزرا ہے۔ اندرون لاہور مغلیہ دور میں دارالحکومت کے طور پر منتخب ہونے کے بعد شہرت پذیر ہوا ، جس کے نتیجے میں لاہور قلعہ تعمیر ہوا۔ والڈ سٹی کو مغل عہد کے دوران شاہانہ طور پر سجایا گیا وزیر خان مسجد ، شاہی مسجد اور شاہی حمام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ سکھ حکمرانی کے دور میں ، اس شہر کو دوبارہ دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا ، اور یہ ایک بار پھر والڈ سٹی میں تعمیر کردہ متعدد مذہبی عمارتوں کے ساتھ نمایاں ہوا جس میں رنجیت سنگھ کی سمادھی ، اور گوردوارہ جنم آستھن گرو رام داس بھی شامل تھے۔ ابتداء میں اس کے 13 دروازے تھے جن میں سے اب صرف 6 باقی ہیں۔ ان چھ میں سے ہر ایک دیکھنے کے قابل ہے۔

مقبرہ جہانگیر
اگر آپ فن تعمیر میں دلچسپی رکھتے ہیں تو مقبرہ جہانگیر یقینی طور پر لاہور میں دیکھنے کے لئے بہترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مقبرہُ جہانگیر17 ویں صدی کا ایک مقبرہ ہے جو مغل بادشاہ جہانگیر کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ مقبرہ 1637 سے قائم ہے ، اور دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ باغ میں واقع ہے۔ اس کو سنگ مرمر سے سجایا گیا ہے اور دیواروں کو رنگین پتھروں کے ٹکڑوں سے مزین کیا گیا ہے۔

کامران کی بارہ دری
کامران کی بارہ دری کو 1540میں پہلے مغل بادشاہ بابر کے بیٹے اور دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کے بھائی کامران مرزا نے تعمیر کیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر کا قدیم ترین مغل ڈھانچہ ہے جو اب بھی قائم ہے۔ یہ محل لاہور کے مضافات میں دریائے راوی کے پار ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے۔ اس تک پہنچنے کے لئے کشتی کی مدد لی جاتی ہے۔اس کی دو منزلیں اور بارہ دروازے ہیں جنھیں ہوا کے گزر کےلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ لاہور کے دیگر تاریخی مقامات کے برعکس ، اس کی حفاظت نہیں کی جارہی ہے -اور یہ زبوں حالی کا شکار ہے۔

داتا دربار
آپ لاہور جائیں اور جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے بزرگ سید علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر نہ جائیں یہ ممکن ہی نہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یہاں 11 ویں صدی میں رہتے تھے۔ یہ لاہور کا مقدس ترین مقام ہے اور اس کے سالانہ عرس میلے میں ملک بھر سے 10 لاکھ زائرین آتے ہیں۔

مادھو لعل حسین کا مزار
لاہور ہی میں مادھو لال حسین کا مزار بھی بہت مشہور ہے۔ مادھو لعل حسین سولہویں صدی کے صوفی شاعر تھے۔ ان کے عرس کے موقع پر یہاں ہر سال میلہ چراغاں ہوتا ہے جو لاہور کا ایک مقبول تہوار ہے۔ یہ میلہ شالیمار گارڈن میں بھی ہوتا تھا ، یہاں تک کہ صدر ایوب خان نے سن 1958 میں اس کے خلاف حکم دیا تھا۔

انارکلی بازار
انارکلی بازار ، لاہور میں دیکھنے کے لئے ایک بہترین مقام ہےچاہے وہ خریداری ، کھانے ، یا محض تفریح کرنی ہو۔ اس کے رومانوی نام کا اثر ہے یا کچھ اور لیکن لاہور آنے والوں کی تفریح اور شاپنگ انارکلی جائے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کے قدیم بازاروں میں سے ایک ہے۔

باغ جناح
لاہور کے مال روڈ پر واقع ایک وسیع و عریض پارک ، باغ جناح صرف ایک تفریح گاہ نہیں، یہاں ایک نباتاتی باغ ، ایک مسجد اور قائد اعظم لائبریری بھی ہے جو 19 ویں صدی کی وکٹورین طرز کی عمارت میں واقع ہے۔اس باغ کی تعمیر 1860 میں شروع ہوئی۔یہاں پر اس دور کے قدیم درخت آج بھی موجود ہیں۔ پارک کے اندر تفریحی اور کھیلوں کی سہولیات بھی ہیں۔ ایک اوپن تھیٹر ، ایک ریستوراں ، ٹینس کورٹ اور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ۔

فوڈ سٹریٹ
جب لاہور کے روایتی کھانوں کی بات ہو تو شاہی قلعہ سے متصل فوڈ سٹریٹ سے بہترین کوئی جگہ نہیں۔اندرون شہر لاہور میں واقع فوڈ اسٹریٹ صرف کھانے پینے کے لیے ہی نہیں بلکہ قدیم حویلیوں میں بنے یہ ریستوران اور اندرون لاہور کی ثقافت کو اجاگر کرتی عمارتیں سیاحوں کو یہاں کھینچ کر لانے پر مجبور کرتی ہیں۔ "حویلیاں ریستوران” اور "کوکوز ڈین” کی چھت پر بیٹھ کر نہ صرف کھانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے بلکہ آپ بادشاہی مسجد اور لاہور کے حسین نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ تو قدیم لاہور کی ثقافت کی ایک جھلک ہے۔لیکن اگر جدید لاہور کو دیکھنا ہو تو لبرٹی، ڈیفنس، امپوریم مال، پیکجز مال اور فورٹریس سٹیڈیم میں رنگ و نور کی برسات نظر آتی ہے۔ یہاں آپ کو زندگی بھاگتی دوڑتی اور رقص کرتی نظر آئے گی۔

جدید دور کا ساتھ دینے کے لیے نئے پلازے اور نئی تفریح گاہیں بنانا ملکی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ لیکن تاریخی عمارات اور مقامی ثقافت کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کی حفاظت کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی ثقافت اور تہذیب کو دیکھنے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں حکومت اور عوام دونوں کا رویہ تاریخی عمارات اور ملکی املاک کی حفاظت کے بارے میں غیر سنجیدہ ہے۔ حکومت ان کی حفاظت اور تزئین و آرائش پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور عوام ان مقامات پر گندگی پھیلانے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ہمیں چاہیے کہ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ان کی حفاظت کریں اور حکومت ان کی حفاظت اور تزئین و آرائش کے لیے خصوصی فنڈ مختص کرے۔ کیونکہ یہی وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے دیکھنے دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں۔ اور اسی سے ملکی ترقی اور بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

@ImranARaja1

Leave a reply