@mnasirbuttt
اور ایک بار موبائل فون سروس بند ہونے سے دنیا بھر سے رابطہ منقطع ہوگیا، گھر سے نکلنا دشوار اور سوشل میڈیا پر رائے دینا محال ہوگیا، ایک بار پھر کالعدم تحریک لبیک کی جانب سے شہر اقتدار پر یلغار کا اعلان اور حکومت کی جانب سے سیکورٹی انتظامات کی آڑ میں موبائل فون سروس، شاہراہیں اور تقریبا عام شہری کی آنکھیں بند کرنے کا آغاز کر دیا گیا، شہر لاہور میں پولیس کی جانب سے فلیگ مارچ اور جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد پر وفاقی و پنجاب پولیس کا مشترکہ دھرنے سے پہلے استقبالی دھرنا بھی جاری ہے، جگہ جگہ کنٹینٹرز لگا کر راستے بند کرنے کے باوجود ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑے نفری منتظر ہے لاہور سے جمعہ کے بعد اسلام آباد کے لیے نکلنے والے مہمانوں کی، پولیس والے اس لانگ مارچ کے انتظار میں دو دن ڈیوٹی پر رہیں گے یا چار دن معلوم نہیں لیکن ان چند روز میں ملحقہ علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی ضرور اجیرن رہے گی، ایک سوال جو ملک بھر کے عوام خصوصا اس صورتحال میں متاثر ہونے والے شہری من میں لیے گھومتے ہیں لیکن پوچھنے کی سکت نہیں کہ آخر حکومت کی جانب گزشتہ دھرنے کو ختم کروانے کے لیے بطور ضمانت قومی اسمبلی میں بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی اب تک معاملات کا حل کیوں نہیں نکال سکی، کیوں تحریک لبیک کی لیڈر شپ کو اعتماد میں لیکر مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی، اگر دیگر قومی مسائل کو حل کرنے میں غیر سنجیدگی کی طرح ادھر بھی سستی دکھا ہی دی گئی تو لاہور میں جاری حالیہ دھرنے کا ہی رخ کر لیا جاتا، کاش لاہور میں ہی ان سے مذاکرات کر لیے جائیں تاکہ مذہبی جماعت کے کارکنان و پولیس کو آمنے سامنے آنے کا موقع ہی نہ ملتا، گزشتہ روز شیخ رشید نے سفارتی تعلقات کے اعتبار سے اہم بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا مسئلے کا حل نہیں ایسا کرنے کی صورت میں یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ رہے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پی ڈی ایم راولپنڈی احتجاج کی آڑ میں مذہبی گروپ کو بھی سنا دیا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی صورت میں قانون حرکت میں آئے گا، پہلی بات تو یقینا درست ہے کہ سفارتی دنیا میں اس طرح کسی بھی گروہ کے پریشر میں آکر سفیر جو کہ اپنے ملک کا نمائندہ سمجھا جاتا یے اس کو ملک بدر کرنا بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کی متعلقہ ملک کے ساتھ طلاق ہوگئی اور آپ نے تین بار لب کشائی کرکے کام تقریبا ختم ہی کر دیا جبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طلاق بھی کیوں دی جائے جب بیوی فرانس جیسی امیر و ترقی یافتہ بیوی ہو ہاں ایتھوپیا کے ساتھ معاملات اس نہج تک پہنچنے تو شاید ریاست مدینہ کے خلیفہ ایسا کچھ سوچ بھی لیتے، دوسری بات کچھ ایسی ہی ہے کہ "کہنا بیٹی کو سنانا بہو کو” وزیر داخلہ نے پنڈی میں احتجاج کرنے والی ن لیگ کو قانون کی حرکت کے بارے میں سنایا تو ضرور لیکن پیغام لاہور والوں کو بھی سنا دیا کہ فیض آباد آنا آسان نہیں اور اگر پہنچ بھی گئے تو مہمان نوازی کا شرف پنجاب و وفاقی پولیس کی مشترکہ میزبانی کو حاصل ہوگا جس میں آنسو گیس، لاٹھی چارج، گرفتاریوں سمیت دیگر اشیاء بھی بطور مینو پیش کی جاسکیں گی، اس ساری صورتحال میں نقصان قوم کا ہوگا جو اپنے معمولات زندگی سے جو کورونا کے عذاب سے بمشکل باہر نکل کر بحالی کی طرف ابھی چلے ہی تھے سے ایک بار پھر ہاتھ دھو بیٹھیں گے دوسرا کسی بھی قسم کی ممکنہ جھڑپ کی صورت میں زخمی پولیس اہلکار ہو یا تحریک کا کوئی کارکن نقصان ریاست کا ہی ہوگا نقصان پوری قوم کا ہی ہوگا، ریاست مدینہ والوں سے دست بدستہ درخواست تو یہ ہی ہے کہ کالعدم تنظیم کے ایکٹو علماء کو بجائے گرفتار کرنے یا مار دھاڑ کرنے کے ان سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی جائے، ان کو سنا جائے اور ان کو بین الاقوامی و قومی مجبوریوں کے حوالے سے آگاہ کیا جائے، ان کو سفارتی دنیا کی بھی ایک سیر کروائی جائے اور مطالبات کی منظوری کی صورت میں ہونے والے ریاستی نقصان کا تخمینہ بھی بتایا جائے لیکن لیکن لیکن ساتھ ہی ساتھ مستقبل میں ہونے والی اس طرح کی کسی بھی قسم کی گستاخی و توہین کی صورت میں سخت ترین قانون سازی بھی کی جائے اور ڈرافٹنگ کے دوران علماء کے ایک وفد کو بھی اپنی تجاویز کو قانونی نقاط میں شامل کرنے کی دعوت دی جائے تاکہ ایمان بھی سلامت رہے اور بروز قیامت نبی الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی جواب دہی ہوسکے کہ آپ کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو صرف جماعتی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر دبایا گیا اس کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ اپنے اختیارات سے بڑھ کر اس کے خلاف کاروائی بھی کی گئی کیونکہ آپ سے محبت ہی ایمان کی نشانی ہے اور آپ کی حرمت پر بولنا ہی زندگی کا حقیقی مقصد لیکن آقا دو جہاں کے پیروکاروں کا یوں سڑکوں پر ایک دوسرے کو آمنے سامنے ہوگا لاٹھی چارج مار دھاڑ اور باقی سب پرتشدد کاروائیاں، یہ نہ ہی اسلام سکھاتا ہے نہ ہی اس سب سے دین کی خدمت میں کوئی حصہ ڈالا جاسکتا ہے