مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوہ سلطانہ بیگم کی لال قلعے پر ملکیت کی درخواست بھارتی سپریم کورٹ نے مسترد کر دی
مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوہ، سلطانہ بیگم، نے دہلی کے تاریخی لال قلعے پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا، تاہم عدالتِ عظمیٰ نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کو قانونی اور تاریخی لحاظ سے ناقابلِ قبول قرار دیا۔چیف جسٹس سنجیو کھنّا کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سلطانہ بیگم کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ”اگر ہم لال قلعہ آپ کو دے دیں، تو کل آپ آگرہ اور فتح پور سیکری کے قلعوں پر بھی دعویٰ دائر کریں گی۔ یہ ملک کا قومی ورثہ ہے، ان مقامات کی تاریخی حیثیت اجتماعی ہے، نہ کہ کسی فرد یا خاندان کی ذاتی ملکیت۔”
سلطانہ بیگم کا دعویٰ تھا کہ وہ مغل خاندان کی حقیقی وارث ہیں، اور چونکہ لال قلعہ ان کے آباؤ اجداد کی رہائش گاہ تھا، اس لیے اس پر ان کا حق بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد ان کے خاندان کو مسلسل نظر انداز کیا گیا اور حکومت نے ان کے حقوق تسلیم نہیں کیے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب سلطانہ بیگم نے عدالتی دروازہ کھٹکھٹایا ہو۔ اس سے قبل انہوں نے 2021 اور پھر 2024 میں دہلی ہائی کورٹ میں بھی اسی نوعیت کی درخواستیں دائر کی تھیں، جنہیں عدالت نے "150 سال کی غیر معمولی تاخیر” کی بنیاد پر مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے تب بھی کہا تھا کہ تاریخی ورثے پر اتنے طویل وقت بعد حق جتانا قانونی طور پر ممکن نہیں۔
لال قلعہ، جو 17ویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کروایا تھا، آج بھارتی ریاست کا اہم قومی ورثہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہر سال یومِ آزادی پر وزیرِاعظم اسی قلعے سے قومی پرچم لہراتے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ لال قلعہ قومی تاریخ کا ایک مشترکہ ورثہ ہے، جس پر کسی ایک خاندان کا دعویٰ تسلیم کرنا آئینی و انتظامی لحاظ سے ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلطانہ بیگم نے کہا”میرا مقصد صرف انصاف کی تلاش تھی، نہ کہ شہرت یا دولت کی ہوس۔ میں نے اپنے خاندان کی عزت اور تاریخی سچائی کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ، لیکن سچ کو دفن نہیں کیا جا سکتا۔”