صدیاں ہیں فقط ایک ہی لمحے کی کہانی ، لمحہ جسے کھو دے وہ دوبارہ نہیں ملتا

ادبیاتِ پاکستان کے مطابق ماہ طلعت زاہدی کی تاریخ ولادت 01 جنوری 1955ء ہے۔
0
48
mah talat zahidi

اس عہد کی تصویر میں اپنا بھی لہو ہے
ڈھونڈے سے مگر نام ہمارا نہیں ملتا

ماہ طلعت زاہدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ ماہ طلعت زاہدی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں انھیں بچپن سے ہی کاغذ قلم کی وابستگی میسرآئی۔ ان کے والد ڈاکٹر مقصود زاہدی خاکہ نگار،شاعر، یاد نگار، افسانہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے اردوادب میں معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ڈاکٹرصاحب کی وابستگی غیرمشروط تھی ۔ماہ طلعت زاہدی کے بھائی ڈاکٹرانور زاہدی بھی شاعری، افسانے اورتراجم کے حوالے سے اردوادب کا معتبرحوالہ ہیں۔

ماہ طلعت زاہدی 08 ستمبر 1953ءکوملتان میں پیداہوئیں ۔ ان کی ایک علمی ادبی ماحول میں پرورش ہوئی۔ انھوں نے 1967ء میں گورنمنٹ گرلز سکول نواں شہر سے میٹرک کیا گرلز ڈگری کالج کچہری روڈ ملتان سے 1969 میں ایف اے اور1972ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا 1977ءمیں ایمرسن کالج بوسن روڈ سے ایم اے اردوکیا ماہ طلعت زاہدی زمانہ طالب علمی سے شعر کہہ رہی تھیں۔ ادبی محافل اورمشاعروں میں ان کی شرکت نہ ہونے کے برابرہے لیکن انھوں نے مشاعروں میں شرکت کیےبغیر بہت باوقار اندازمیں ادبی حلقوں سے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا اور ناقدین ادب سے بھرپور داد وصول کی۔

2000ء میں نامور ماہر تعلیم نقاد اور محقق ڈاکٹراسدادیب ان کے رفیقِ حیات بنے جس کے بعد ماہ طلعت زاہدی کی کتابوں کی اشاعت بھی شروع ہوئی ۔ اب تک ان کی نظموں کے دو، غزلیات اورسہ حرفیوں کا ایک ایک مجموعہ شائع ہوچکاہے جبکہ سفرنامہ انگلستان ”تاب نظارہ نہیں“ کے نام سے منظرعام پرآیاہے۔ راجہ بھرتری ہری، رابندرناتھ ،ٹیگور،عمرخیام ، واحد بشیر ،کبیرداس، میرابائی کے بارے میں مضامین پرمشتمل انکی ایک اورکتاب بھی اشاعت کی منتظرتھی ماہ طلعت زاہدی کی مطبوعہ کتابوں میں روپ ہزار، شاخ غزل، میں کیسے مسکراتی ہوں ، تین مصرعوں کاجہاں اور تابِ نظارہ نہیں شامل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبیاتِ پاکستان کے مطابق ماہ طلعت زاہدی کی تاریخ ولادت 01 جنوری 1955ء ہے۔

غزل
۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں اک سوال سا تھا
میرے دل میں کوئی ملال سا تھا
دھل گیا آنسوؤں میں سارا وجود
عشق میں یہ عجب کمال سا تھا
جسم کی ڈال پر جھکا تھا خواب
روح سرشار دل نہال سا تھا
گفتگو کر رہی تھی خاموشی
ہجر کی راہ میں وصال سا تھا
خواہشیں ہر گھڑی عروج پہ تھیں
وقت کو ہر گھڑی زوال سا تھا
میں بھی تھی آشنا روایت سے
اس کو بھی ضبط میں کمال سا تھا
خواب در خواب تھیں ملاقاتیں
درد دل وجہ اندمال سا تھا
آئنہ بن گیا ہے میرے لئے
ایک چہرہ کہ بے مثال سا تھا

غزل
۔۔۔۔
بے کہے بے سنے خدا حافظ
جو بھی گزرے اسے خدا حافظ
درد رک بھی گیا اگر تو کیا
ہے اجل سامنے خدا حافظ
لغزشیں سب معاف ہوں میری
وقت عجلت میں ہے خدا حافظ
اتنی ناراضگی ارے توبہ
وہ بھی بیمار سے خدا حافظ
کم سے کم مڑ کے دیکھیے صاحب
زندگی کہتی ہے خدا حافظ
درد ہے یا ہے موت کی دستک
بے بسی کیا کرے خدا حافظ
کار دنیا تو ختم ہوتا نہیں
کہنا ہی پڑتا ہے خدا حافظ

غزل
۔۔۔۔
وحشت بھری راتوں کو کنارہ نہیں ملتا
دل ڈوب چلا صبح کا تارا نہیں ملتا
ملتے ہیں بہت یوں تو جو آغوش کشا ہو
دل کے لئے وہ درد کا دھارا نہیں ملتا
اس عہد کی تصویر میں اپنا بھی لہو ہے
ڈھونڈے سے مگر نام ہمارا نہیں ملتا
قدرت کا کرم ہو تو الگ بات ہے ورنہ
مشکل میں تو اپنوں کا سہارا نہیں ملتا
صدیاں ہیں فقط ایک ہی لمحے کی کہانی
لمحہ جسے کھو دے وہ دوبارہ نہیں ملتا

Leave a reply