لاپتا افراد کیس میں وفاقی سیکریٹری داخلہ نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی

سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر وفاقی سیکریٹری داخلہ کو جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

عدالتی حکم کے بعد وفاقی سیکرٹری داخلہ، ڈائریکٹر ہیومن رائٹس، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر پیش ہوگئے۔ عدم پیشی پر وفاقی سیکریٹری داخلہ نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور شوکاز نوٹس کا جواب بھی جمع کرادیا۔

عدالت نے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا آپ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے؟ عدالت کو جواب کے لیے بار بار نوٹس جاری کرنا پڑتے ہیں۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے یہاں لوگ پریشان ہیں اور عدالت کی جانب دیکھتے ہیں۔ جواب جمع نہ ہونے پر کیسز غیر ضروری التوا کا شکار ہیں، یہ بتائیں، حراستی مراکز کس کے زیر انتظام ہیں؟۔

وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ حراستی مراکز کے پی کے حکومت کے زیر انتظام ہیں۔ لاپتہ افراد سے متعلق لسٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کرا چکے۔

عدالت نے استفسار کیا اگر لسٹیں موجود ہیں تو چیک کرکے جواب جمع کیوں نہیں کرایا جاتا؟ نام چیک کریں اور بتا دیا کریں مذکورہ شخص پاس ہے یا نہیں۔ جبری گمشدگی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے، اسے ختم کرنا ہوگا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے موقف دیا کہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر وفاقی حکومت کام کررہی ہے۔ خیبر پختونخواہ کے حراستی مرکز میں سندھ سے لاپتا ہونے والے تین افراد کی نشاندہی ہوئی ہے۔

سندھ سے لاپتا ہونے والے دیگر افراد کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ وفاقی حکومت ترجیحی بنیادوں پر اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے ہم نے حکم کی تعمیل نہ ہونے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ امید کرتے ہیں مستقبل میں وفاقی سیکریٹری داخلہ عدالتی حکم کو نظر انداز نہیں کریں گے۔

عدالت نے ہدایت کی لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ وفاقی سیکریٹری داخلہ آئندہ سماعت پر بھی خود پیش ہوں۔

عدالت نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے اور لاپتہ افراد سے متعلق جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 24 اگست تک ملتوی کردی۔

Comments are closed.