لاپتا افراد کیس: عدالت سمجھتی ہے کہ کمیٹیاں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ

0
32
Shahbaz

لاپتا افراد کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صاحب مسنگ پرسنز ایک بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کا وہ ردعمل نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج بروز جمعہ 9 ستمبر کو مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں متفرق درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم بھی مریم اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذر تارڑ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

وزیراعظم کی عدالت آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، جب کہ خاردار تاریں اور بیرئیرز لگا کر اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں۔ کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی بند رہا،میڈیا نمائندوں کو بھی عدالت میں جانے سے روکا گیا۔ وزیراعظم کا سیکیورٹی اسٹاف بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود رہا۔

عدالتی کمرے میں لاپتا صحافی مدثر ناروکا بیٹے بھی موجود تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کمرہ عدالت میں مدثر نارو کے بیٹے کو دلاسہ دیا۔ کیس کی سماعت کے موقع پر لاپتا افراد کے لواحقین اور آمنہ مسعود جنجوعہ بھی موجود تھی۔

سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔

سماعت کے آغاز میں وزیراعظم ، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس وقت سیلابی صورت حال میں کام کر رہے ہیں، عدالت سراہتی ہے کہ آپ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ بہت پیچیدہ صورت حال ہے، بدقسمتی سے ایک 9 سال چیف ایگزیکٹو رہنے والے نے فخریہ لکھا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے، آپ نے کمیٹی تشکیل دی جس پر عدالت آپ کی مشکور ہے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ جس تکلیف سے گزرتے ہیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں، لاپتا افراد احتجاج کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت نے ان کی اواز نہ سنی، ہم لاپتا افراد کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں اس لیے آج اپ کو تکلیف دی ، جب ہمارے سامنے کہا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں پتا کہ لاپتا افراد کو کون اٹھا کر لے گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ریاست کا ایک آئین ہے، اس ملک میں آئین کے مطابق سول سپرمیسی ہونی چاہیے، اس عدالت نے یہ معاملہ کئی بار کابینہ کو بھیجا لیکن کچھ نہیں ہوا، آپ کو معاملہ بھیجا تو آپ نے اس پر اچھا اقدام اٹھایا ایک کمیٹی بنائی، یہ عدالت سمجھتی ہے کہ کمیٹیاں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کو اس عدالت نہ آنا پڑتا، بلوچ طلبہ کے جو مسائل عدالت کے سامنے آ رہے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں، نیشنل سیکیورٹی کے تمام معاملات سولین چیف ایگزیکٹو کی طرف سے دیکھے جانے چاہئیں، کسی کی جانب سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا تاثر بھی ملک کیلئے نقصان دہ ہے، یہ آئینی عدالت ہے ریاست آ کر کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتا شہری کہاں ہے، پھر اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ کو کہنا پڑیگا کہ اس ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں، اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی، پھر بھی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے، گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تبھی ختم ہونگے جب آئین بحال ہوگا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے لیکن کوئی حل بتا دیں، جب وہ چھوٹا بچہ اس عدالت آتا ہے تو یہ عدالت اس کو کیا کہے؟ پہلے بھی اس عدالت نے اِس بچے کو وزیراعظم کے پاس بھیجا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے، میری بہت اہم مصروفیات تھیں لیکن اس عدالت کے حکم سے زیادہ اہم نہیں۔

قبل ازیں جمعرات 8 ستمبر کو وزیراعظم کی لاپتا افراد کے لیے قائم وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی یقین دہانی پر لاپتا افراد نے کوئٹہ میں پچاس روز سے جاری دھرنا ختم کردیا ہے۔ کمیٹی سے کامیاب مذاکرات کے بعد لاپتا افراد نے اکیس جولائی سے زرغون روڈ پر ریڈ وزن میں جاری دھرنا ختم کیا۔

وفاقی وزیررانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے تمام فریقین کا تعاون درکار ہے۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نزیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور شازیہ مری سمیت آٹھ رکنی کمیٹی نے دھرنے میں بیٹھے مظاہرین سے مزاکرات کیے۔ وزیر قانون بیرسٹر اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت خلوص نیت سے لاپتا افراد کا مسئلہ کرنا چاہتی ہے۔

وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزراء سے ملاقات کی اور لاپتا افراد سے متعلق اجلاس میں چیف سیکریٹری اور متعلقہ حکام سے بریفنگ لی۔

Leave a reply