مزید دیکھیں

مقبول

پی آئی اے کی پرواز کا ایک پہیے پر لینڈنگ کا انکشاف

لاہور: قومی ائیر لائن پی آئی اے کی...

چینی، گھریلو سیلنڈر، بیف، آٹے کا تھیلا اور چاول مہنگے

ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ہفتہ وار اعدادوشمار جاری...

کراچی: گلشن معمار میں چھت گرنے سے جاں بحق بچیوں سمیت 6 خواتین کی نماز جنازہ ادا

کراچی،باغی ٹی وی (نمائندہ خصوصی) گلشن معمار میں چھت...

لتا منگیشکرکی موت پرپاکستانی معروف اورسیاسی شخصیات کی جانب سےشدید دُکھ کا اظہار

بھارتی لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر کی موت پر پاکستانی معروف ،شوبز اور سیاسی شخصیات کی جانب سے شدید دُکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے-

باغی ٹی وی : قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا لتا منگیشکر کے انتقال سے موسیقی کی دنیا ایک ایسے گلوکار سے محروم ہوگئی جس نے اپنی سُریلی آواز سے نسلوں کو مسحور کیا۔ میری نسل کے لوگ ان کے خوبصورت گانے سنتے ہوئے بڑے ہوئے جو ہماری یادوں کا حصہ رہیں گے-


چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ اپنی آواز کا جادو جگا کر لتا منگیشکر نے کروڑوں انسانوں کو اپنے سنگیت کا گرویدہ بنایا آنجہانی لتا منگیشکر برصغیر میں موسیقی کی ایک پہچان تھیں، فلمی صنعت کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ لتا منگیشکر کے گیت، ان کے نغمے اور سُر کبھی فراموش نہیں کیے جا سکیں گے لتا منگیشکر کی وفات دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کے لے ایک گہرا صدمہ ہے۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدارنے گلوکارہ لتا منگیشکر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا لتا منگیشکر کے انتقال سے فن موسیقی کے ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ لتا منگیشکر کا گلوکاری میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ سُر، تان کی ملکہ لتا منگیشکر نے فلم نگری پر طویل عرصہ راج کیا۔ لتا منگیشکر نے کئی دہائیوں تک آواز کا جادو جگایا۔

پاکستان کر کٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے بھی بھارتی لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر کی موت پر شدید دُکھ کا اظہار کیا ہے-


ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں رمیز راجہ نے کہا کہ ’لتا منگیشکر رحمدلی، عاجزی اور سادگی کی مظہر تھیں اُن کی خوبصورت اور عظمت سے بھرپور شخصیت ہم سب کے لیے ایک سبق تھی اُنہوں نے شدید دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کشور کمار اور اب لتا جی کی موت نے مجھے موسیقی سے محروم کر دیا ہے۔‘


وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھارتی لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر کو خوب صورت الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ لتا منگیشکر کا انتقال موسیقی کے ایک عہد کا خاتمہ ہے لتا جی نے عشروں تک سُروں کی دنیا پر حکومت کی، ان کی آواز کا جادو رہتی دنیا تک برقرار رہے گا جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں لتا منگیشکر کو الوداع کہنے والوں کا ہجوم ہے۔

دوسری جانب گلوکارہ لتا منگیشکر کی موت پر پاکستانی فنکاروں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو موسیقی کی دنیاکا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔

اداکار عمران عباس نے لتا منگیشکر کی موت پر نہایت دکھ اور افسوس کاا ظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو موسیقی کی دنیا کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ انہوں نے لتاجی کی ایک یادگار تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا انڈیا کی بلبل نہیں رہیں۔ ان کی آواز پوری کائنات کے لیے خدا کی دی ہوئی نعمت تھی۔ آج ایک دور کے خاتمے کا دن ہے لتا جی آپ نے کئی دہائیوں تک ہمارے دلوں کو فتح کیا اور آنے والے سالوں میں آپ بطور میلوڈی کوئین ہمیشہ راج کرتی رہیں گی۔ الوداع لتا منگیشکر۔ خدا نگہبان ہو تمہارا۔


اداکار عدنان صدیقی نے لتا منگیشکر کی موت کو موسیقی کی دنیا کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی ناقابل فراموش دھنوں کو سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ سُروں کی ملکہ جو خلا آپ نے چھوڑا ہے وہ کبھی نہیں پُر ہوسکتا۔

گلوکارہ میشا شفیع، نادیہ حسین، سلمان احمد، اداکارہ ریشم نے لتا منگیشکر کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ایک باب ختم ہوا‘‘۔ اداکارہ بشریٰ انصاری نے لتا منگیشر کی ایک خوبصورت تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ہم کیا کریں گے‘‘۔ بشریٰ انصاری نے کہا کہ لتا جی آپ سے ملنے کی خواہش رہ گئی۔

بالی ووڈ کی لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر 92 برس کی عمر میں چل بسیں لتا منگیشکر28 ستمبر 1929 کو اندور میں پیدا ہوئیں لتا منگیشکر کی آخری رسومات پاکستانی وقت کے مطابق آج شام 6 بجے ممبئی کے شیواجی پارک میں ادا کی جائیں گی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق لتامنگیشکر اتوار کی صبح ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں چل بسیں۔ لتا منگیشکر کو 8 جنوری کو ہلکی علامات کے ساتھ کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد انہیں ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں انہیں نمونیا کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد انہیں انتہائی نگہداشت (آئی سی یو) کے وارڈ میں داخل کیا گیا تھا اور وہ تقریباً 20 روز تک وینٹی لیٹر پر رہی تھیں۔

گزشتہ روز لتا منگیشکر کی حالت ایک بارپھر بگڑنے پر انہیں دوبارہ وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ بریچ کینڈی اسپتال کے ڈاکٹر پرتت صمدانی نے لتا منگیشکر کی حالت کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ گلوکارہ اب بھی آئی سی یو میں ہیں اور ڈاکٹرز کی زیر نگرانی رہیں گی۔

لتا منگیشکر کی بگڑتی حالت کا سن کر اداکارہ شردھا کپور سمیت متعدد بالی ووڈ فنکار ان سے ملنے اسپتال پہنچے تھے۔ جب کہ مادھوری ڈکشٹ، روینہ ٹنڈن سمیت متعدد فنکاروں نے گلوکارہ کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی تھی۔

لتا منگیشکر کی بہن گلوکارہ آشاہ بھوسلے بھی اپنی بہن سے ملنے گزشتہ روز اسپتال پہنچیں تھیں اور ان کی صحت کے بارے میں میڈیا کو بتایا تھا کہ اب لتا دیدی کی حالت مستحکم ہے تاہم لتامنگیشکر جانبر نہ ہوسکیں۔

پنڈت دینا ناتھ منگیشکر اور شیونتی منگیشکر کی بیٹی لتا کا تعلق موسیقی کے گھرانے سے تھا اس کے والد ایک مشہور مراٹھی موسیقار اور تھیٹر آرٹسٹ تھےکئی ڈراموں میں بطور چائلڈ آرٹسٹ نظر آئیں 13 سال کی عمر میں شوبز کیرئیر شروع کیا-

تین بہنیں، ایک بھائی اور ماں کے ساتھ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ 1942 میں ماسٹر دینا ناتھ دنیا سے گزر گئے اور پورے گھرانے کی ذمہ داری 13 سالہ بچی کے کندھے پر آ پڑی کھیلنے کے دن تھے لیکن زندگی نے فلم سیٹ پہ لا کھڑا کیا۔ میک اپ کی ملمع سازی اور سیٹ کی ہنگامہ خیزی سے ان کا دل کٹتا رہتا۔ بمبئ کے ریلوے سٹیشن ملاد سے سٹوڈیوز کا فاصلہ اچھا خاصا تھا لیکن وہ پیدل آیا جایا کرتیں تاکہ پیسے بچا سکیں رات گئے جب گھر پہنچتی تو ہاتھ میں تھوڑی سی سبزی، ساڑھی کے پلو میں چند سکے اور آنکھ میں ڈھیر سارے آنسو ہوتے۔ یہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی لیکن اگلے دن پیٹ کی بھوک دوبارہ فکمی دنیا کے دوزخ میں لا جھونک دیتی۔

ان کا نام ہیما تھا جسے دنیا لتا مینگیشکر کے نام سے جانتی ہے ان کے والد تھیٹر کے مشہور اداکار اور کلاسیکل گائیک تھے مراٹھی زبان کی تین فلمیں ناکام ہوئیں جس کے بعد مایوسی، گھٹیا شراب اور موت تک کا فاصلہ پلک جھپکتے میں طے کر لیا۔ اس کڑے وقت میں ماسٹر جی کے دیرینہ دوست ماسٹر وینائیک نے کولہا پور اپنے پاس بلایا اور پھر اپنی کمپنی کے ساتھ بمبئی لے آئے نئی مصیبت یوں پڑی کہ وونائیک بھی چل بسے اور یوں 1948 میں ماسٹر غلام حیدر نے لتا کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

ماسٹر غلام حیدر اس وقت چوٹی کے موسیقار تھے۔ وہ پاکستان سے ایس مکھر جی کی فلم شہید کے لیے موسیقی ترتیب دینے دوبارہ بمبئی گئے اور آرکسٹرا میں کسی کے کہنے پرلتا کو ایک بار سن لینے پر راضی ہو گئے۔ ماسٹر جی شہید فلم کے لیے یہ نئی آواز استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ایس مکھر جی نے کہا نہیں، اس بچی کی آواز بہت پتلی ہے یہ نہیں چلے گی۔

ماسٹر غلام حیدر لتا جی کے ساتھ ریلوے سٹیشن کی طرف چل پڑے اور راستے میں اس نئی آواز کی مناسبت سے سگریٹ ٹن پر ایک گیت کی دھن تیار کی جو ان کی دوسری فلم مجبور (1948)میں دل میرا توڑا کے بول کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ گیت انل بسواس نے سنا اور اس طرح کھیم چند پرکاش تک نئی آواز کی خبر پہنچی۔

کمال امرہوی کی فلم محل(1949) ان دنوں بننے کے مرحلے میں تھی کہ ایک دن اس کے موسیقار کھیم چند پرکاش نے کُم کُم کے نام سے مشہور اُمّہ دیوی، اداکارہ جو اچھا گا لیتی تھیں، کو ایک گیت گانے کی پیشکش کی۔ کُم کُم نے کاردار پروڈکشن ہاؤس سے معاہدے کی وجہ سے انکار کر دیا گیت نوآموز لتا کو مل گیا اور اس گیت نے ہندوستانی سینما کی تاریخ بدل کے رکھ دی۔ یہ لتا کا پہلا ہٹ گیت آئے گا آنے والا تھا۔

لتا منگیشکر نے 1943 میں ریلیز ہونے والی مراٹھی فیچر گجابھاؤ کے لیے اپنا پہلا ہندی گانا "ماتا ایک سپوت کی دنیا بدل دے تو” ریکارڈ کیا۔ جن میں انیل بسواس، شنکر جئے کشن، نوشاد علی اور ایس ڈی برمن کے علاوہ دیگر شامل ہیں لتا منگیشکر پچاس ہزار سے زائد گانے گا چکی ہیں وہ 1974ء سے 1991ء تک گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ریکارڈ ہولڈر کے طور پر شامل رہیں۔ بک کے مطابق وہ دنیا میں سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے والی گلوکارہ ہیں۔

ماسٹر غلام حیدر نے ایس مکھر جی سے کہا تھا ‘آپ ابھی اس آواز کو چاہے پسند نہ کریں لیکن ایک وقت آئے کا موسیقار اور سرمایہ کار اس آواز کے تلاش میں سر کے بل قطار اندر قطار آئیں گے۔ ‘ یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور تب لتا نے ادھار چکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جب لتا جی نے گانا شروع کیا اس وقت فلم سنگیت کو کلاسیکل گلوکار نہایت حقارت سے دیکھتے تھے۔ لتا جی نے ابتدا میں کلاسیکی موسیقی سیکھنا شروع کر دی لیکن جیسے ہی ماسٹر غلام حیدر کو معلوم ہوا انہوں نے پاکستان سے خط لکھا کہ’ آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ آپ کی آواز بہتے ہوئے مدھر دریا کی سی ہے۔ کلاسیکی انداز چناب کی روانی کو مجروح کر دے گا۔

فلم کی دنیا میں کیسی کیسی ہنگامہ خیر ہوائیں چلیں، کیسے کیسے چہرے بجھ گئے اور کتنے ہی تخلیق کاروں کے سوتے خشک ہو گئے لیکن لتا کی لے اس شور میں کبھی گم نہ ہو سکی۔ کتنی نسلوں نے لتا کی آواز میں محبت کرنا سیکھا، اپنی تنہائی کو مٹایا اور زندگی کا بوجھ اٹھانے میں مدد لی 1989 میں لتا کی عمر 60 برس تھی لیکن ان کا گیت دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نا سن کر ایسا لگتا ہے جیسے 20 سالہ لڑکی گا رہی ہے۔ اس گیت کو پچھلے تیس برس کا مقبول ترین گیت سمجھا گیا۔

50 کی دہائی میں لتا جی نمبر ون تھیں تو نوے کی دہائی میں بھی بہترین گیت انہی کی آواز میں امر ہوئے اگر 1949 میں انہوں نے برسات کے لیے نو گیت گائے تو 51 برس بعد ویر زارا کے لیے بھی اتنے ہی گیت گا کر صدا بہار گلوکارہ ہونے کا عملی ثبوت دیا۔

1961 کا جب بھارتی فلموں میں مدھر اور رسیلی آواز کی حامل لتا منگیشکر کی آواز کا جادو اپنے پورے عروج پر تھا۔ 32 برس کی لتا منگیشکر کامیابی اور کامرانی کی نئی مثالیں قائم کرنے میں مگن تھیں کہ کسی نے ان کی ایک دن اچانجک طبیعت خراب ہوئی جب ڈاکٹر نے چیک اپ کیا تو انکشاف ہوا انہیں کھانے میں سلو پوائزن دیا جا رہا ہے جس کے بعد ان کا علاج شروع ہوا اور ان کا باورچی اچانک سے غائب ہو گیا-

گلوکارہ نے دوبارہ تین ماہ بعد کام کا آغاز کیا اور گانا ’بیس سال بعد‘ کا ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘ گایا ۔ لتا منگیشکرنے اس گانے کو ایسا ڈوب کر گایا کہ اس گیت نے انہیں اگلے سال بہترین گلوکار کا فلم فیئر ایوارڈ کا حقدار بنا دیا لتا منگیشکر کو زہر دینے کی سازش میں کون ملوث تھا؟ کس نے، کیوں اور کس کے اشارے پر یہ کارستانی دکھائی؟ اس راز پر سے کبھی پردہ نہیں اٹھا۔ خود منگیشکر خاندان اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کرتا رہا دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی بھی اس باورچی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی گئی جو اس واقعے کے بعد بغیر تنخواہ لیے پراسرار طور پر اڑن چھو ہو گیا تھا۔

لتا جی کی ایسی بے مثل کامیابی دیکھتے ہوئے کروڑوں لوگ سوچتے ہوں گے کاش وہ لتا مینگیشکر ہوتے۔ جاوید اختر نے جب ان سے پوچھا کہ آپ اگلے جنم میں کیا بننا چاہیں گی تو انہوں نے کہا ‘کچھ بھی، لیکن لتا مینگیشکر نہیں۔’ جی ہاں! سنگھرش کے ابتدائی دنوں کا سایا آسیب کی مانند ساری زندگی لتا جی کا پیچھا کرتا رہا ایک تلخی جو ان کے مزاج کا حصہ بن گئی اور وہ کبھی اپنا نجی جیون سریلا نہ بنا سکیں۔ کروڑوں سماعتوں میں امرت گھولنے والی لتا جی ایسے ذائقہ سے آشنا نہ ہو سکیں جو ان کی تلخی مٹا سکتا-

انہوں نے ہندی، بنگالی، مراٹھی اور دیگر علاقائی زبانوں میں گانوں کو اپنی آواز دی ہے لتا کو بے شمار ایوارڈز ملے۔ خود ان کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کا پیار ہے انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، بھارت رتن، پدم بھوشن کے ساتھ ساتھ کئی قومی اور فلم فیئر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔