چند روز قبل کینیڈا میں ایک پاکستانی مسلم خاندان کو جو ٹرک کے نیچے کچل کر قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا،میں نے اس پر اپنی ایک اصلاحی مجلس میں کچھ معروضات پیش کیں کہ ہم مسلمانوں کا اس طرح بلاوجہ و بلا ضرورت اپنے ملک چھوڑ کرکافروں کے ملکوں میں جاکر برضا و رغبت و اطمینان رہنا بالکل غلط ہے۔ایسا عمل کرنے والوں کے بارے میں پیارے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ ہے کہ "میں ان سے بری ہوں”
البتہ وہیں کے مقامی لوگوں کا معاملہ مختلف ہے۔بعد گفتگو نجی محفل ہوئی تو ایک دوست میرے پاس بیٹھ کر کینیڈاویورپ وغیرہ کے” فضائل "بیان کرنے لگے۔
انہوں نے جب وہاں کی خوبیاں گنوانی شروع کیں تو میں نے کہا کہ ان خوبیوں کو اپنانے سے ہمیں کس نے روکا؟اور اس پر اختلاف کس کا ہے؟ ہمیں خود کو درست کرنا چاہیے، اخلاقی و معاشرتی آداب کو زندگی کا حصہ بنانا چائیے، یہ سب تو میں خود ابھی بیان بھی کر چکا ہوں۔
باتوں باتوں میں انہوں نے ساتھ خود ہی انکشاف کیا کہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد کینیڈا میں ہی مقیم ہیں۔ ان کی پھوپھو حالیہ رمضان کے آغاز میں کینیڈا میں ہی وفات پا گئی تھیں تو ان کی وہیں تدفین ہوئی۔بتانےلگے کہ ان کی قبر کی جگہ کے لئے وہاں ان کی فیملی نے مقامی سرکاری انتظامیہ کو پاکستانی 9لاکھ روپے کے برابر ادا کی تب تدفین ممکن ہوئی۔
(بصورت دیگر نعش تب تک سرد خانے میں رہتی ہے جب تک رقم کا انتظام نہ ہوجائے اور وہ مسلمان باہم چندہ وغیرہ جمع کرکے کرتے ہیں،اور سرد خانے کا بل بھی بھرنا پڑتا ہے)
جی، آپ کو معلوم ہے کہ کینیڈا وہ ملک ہے،جو کرہ ارض پر رقبے کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر پے اور آبادی میں پونے چار کروڑ کے ساتھ 37ویں نمبر پر (یعنی ہمارے ایک شہر کراچی سے کچھ زیادہ )البتہ دولت وثروت میں دنیا کے پہلے 10امیر ترین ممالک میں سے ایک،لیکن دل اتنا تنگ اور ظرف اتنا چھوٹا ہے کہ ایک قبر کی جگہ اپنے کسی شہری کو مفت تو کجا کم قیمت میں نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔
میں ابھی پڑھ رہا تھا کہ ہماری ایک عدالت نے آج ہی پنجاب حکومت کو حکم دیا ہے کہ بڑے شہروں کے پوش امیر علاقوں میں بھی جو چند ہزار روپے لے کر تدفین ہوتی ہے،اسے بھی ختم کرے اور مکمل مفت تدفین کا اہتمام کرے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اسی دوران ایک اور دوست بتانے لگے کہ ان ملکوں میں بسنے والے ہم پاکستانی وغیرہ تو انگریزوں کے علاقوں میں بہت کم جاتے ہیں کیونکہ ان کی ہم سے نفرت ہی اتنی ہوتی ہے جو برداشت نہیں ہو پاتی۔نائن الیون کے بعد تو وہاں ہر روز کتنی جگہ تارکین وطن مسلمانوں کو چن چن کر مارا جاتا،حملے کئے جاتے ہیں۔
کمال دیکھئے کہ وہاں آپ پانی سے استنجا نہیں کرسکتے، کیوں کہ کسی بھی استنجا خانے میں پانی رکھنا سخت منع ہے،آپ جتنے مرضی امیر ہوں،گھر میں ملازم نہیں رکھ سکتے،گھر کے سارے کام اہل خانہ نے خود کرنے ہوتے ہیں،مر جائیں تو جنازے میں 40 موحد نمازی مسلمان شامل ہونے والے نہ مل پائیں،
یہ کیسی زندگی ہے جس کی طرف ہمارے لوگ دوسروں پر محض اپنی سبقت ظاہر کرنے کے لئے لپک لپک کر دوڑے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ وہی جن کے یہاں ناز نخرے اٹھانے والے بے شمار ہوتے ہیں وہ وہاں محض چمک دمک پر نامعلوم و گمنام زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے سب لٹانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔جن کی یہاں حکومتی موج مستیاں ہوتی ہیں اور ہر طرف ہٹو بچو کی صدائیں ہوتی ہیں وہ وہاں سڑکوں گلیوں ٹرینوں میں ویسے ہی گھوم رہے ہوتے ہیں اور کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں ہوتا۔
اللہ فرماتے ہیں
(اے مسلمانو !)تمھیں کافروں کا دنیا میں عیش و رونق کے ساتھ رہنا کسی دھوکے میں نہ ڈالے،یہ تو تھوڑا سا سامان زیست ہے اور پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے۔۔۔۔
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو۔۔۔۔۔۔
خاص تحریر۔۔۔۔۔(علی عمران شاھین)








