کچھ قربانی آپ بھی دیجئے عوام کو بھی زندہ رہنے دیجئے
ازقلم غنی محمود قصوری
ہمارا المیہ ہے کہ ارض پاک میں ہر قسم کی قربانی عام غریب عوام کو ہی دینی پڑتی ہے صاحب اختیار اور صاحب اقتدار ہمیشہ ہی قربانی دینے کی بجائے قربانی عوام کی کرتے آئے ہیںگزشتہ دو دہائیوں سے جب سے ہم نےہوش سنبھالا اور شعور آیاہے تب سے تقریباً 4 سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئی ہیں جیسے کہ مسلم لیگ ق،پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف اب ایک بار پھر سے مسلم لیگ ن کی حکومت ہے
میں زیادہ لمبی چوڑی بات نہیں لکھتا صرف اپنے دیکھنے کی بات لکھتا ہوں کہ ہم نے جو دیکھا اللہ تعالی اس پر حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے
ہم نے دو دہائیوں میں دیکھا ہے کہ جو بھی آتا گیا قرضہ لیتا گیا عوام پر نئے سے نئے ٹیکس لگاتا گیا اور اپنے اثاثے بناتا گیا،وہ الگ بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا کارکن اس بات کو اتنا ہی تسلیم کرتا ہے کہ بس ہمارے لیڈر اور ہماری حکومت نے عوام کا فائدہ کیا ،باقیوں نے عوام کو ذبح کیا ہمارا لیڈر بڑا پوتر اور پاک ہے باقی سب چور ڈاکو ہیں،حالانکہ سب جانتے اور مانتے ہیں عوام کو ذبح کرنے میں سب ایک ساتھ برابر کے شریک جرم ہیں
1958 میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا اور ابتک پاکستان گزشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لئے تقریباً 21 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے اور پاکستان تقریباً دنیا کا پانچواں مقروض ترین اور ایشیاء کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے ،حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر بار لئے گئے قرضوں سے عوام مزید غریب ہوتی جا رہی ہے اور جو بھی گورنمنٹ آئی جاتے وقت اس کے کارندے خوب پھلتے پھولتے ہیں
قرضہ لینا کوئی بڑی بات نہیں امریکہ اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی آئی ایم ایف کے مقروض ہیں مگر ان کے قرضوں سے عوام نے ریلیف حاصل کیا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں قرضہ حکمران لیتے ہیں مقروض عوام ہوتی ہے،قرضہ ملتے ہی عیاشیاں حکمران کرتے ہیں اور نئے ٹیکس عوام پر لگتے ہیں
آپ موجودہ چند ماہ ہی دیکھ لیں جس قدر قرضہ آتا گیا ہے اسی قدر عوام پر سختیاں بڑھتی گئی ہیں،ویسے سوچنے کی بات ہے آئی ایم ایف قرض دیتے وقت عوام پر نئے سے نئے ٹیکس لگانے کی شرائط تو رکھتاہے مگر کبھی بھی حکمرانوں کا پروٹوکول ختم کرنے اور ان کی مراعات میں کمی کی شرط نہیں رکھتا
آئی ایف ایم چاہتا ہے جس طرح مصر،لیبیا اور شام میں عوام اور حکمرانوں میں تصادم کروا کر خانہ جنگی کروائی گئی ہے ایسے ہی پاکستان میں خانہ جنگی ہو ، تاہم اللہ کا خاص کرم ہے اتنے بوجھ تلے دبی عوام کو رب تعالی اپنی خاص رحمت سے صبر بھی عطا کر رہا ہے اور تھوڑی بہت سہولیات بھی
یہ ہم پاکستانی قوم کی رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے
عوام نئے ٹیکس لگوا کر مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر بھی شکر خداوندی کرتے ہیں تاہم ہماری اشرافیہ جس میں جج،جرنیل،سیاستدان و دیگر اعلی پائے کے لوگ شامل ہیں ہمیشہ اپنی مراعات بڑھاتے رہے ہیں اور خوب عیاشیاں کرتے ہیں اپنی جاگیریں بڑھاتے ہیں، واضِح رَہے کہ ہر آنے والی گورنمنٹ نے پروٹوکول و مراعات کو ختم کرنے کا دعویٰ تو کیا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کبھی بھی کسی ایک گورنمنٹ نے اس بات پر عمل نہیں کیا ،
ہمارے حکمران عوام کو آئین کے تابع رہنے کی باتیں کرتے ہیں مگر سب سے زیادہ آئین کی توہین بھی یہی حکومتیں کرتی ہیں میں کسی ایک گورنمنٹ کی بات نہیں کر رہا سب پارٹیوں کی گورنمنٹس اس میں شامل ہیں
آئین پاکستان میں 7 شیڈول چیپٹرز ہیں جنکو 12 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور آئین پاکستان کے آرٹیکلز کی تعداد 280 ہے جن میں پہلے 40 آرٹیکلز میں عوام کے حقوق ، اصول حکمت عملی اور حکومتی ذمہ داریوں کا ذکر ہے مگر آپ غور کریں اور آئین پڑھیں تو ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا جیسے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 25 میں شہریوں میں مساوات رکھنے، تمام شہر ی قانون کی نظر میں برابر ہونے اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہونے کے حقدار ہیں مگر آپ موجودہ گورنمنٹ کو دیکھ لیں فائلر اور نان فائلر کی آڑ میں کس قدر بندر بانٹ کی گئی ہے جو پہلے سے امیر ہے اس کو رعایت اور جس بیچارے کے گھر روٹی نہیں پکتی اس پر مزید تنگی کی گئی ہے
اسی طرح جو اعلیٰ افسران ہیں وہ لاکھوں روپے تنخواہ بھی لیتے ہیں اور گاڑی بنگلہ کیساتھ ملازمین اور پروٹوکول بھی لیتے ہیں جبکہ ایک درجہ چہارم کا ملازم ان افسران کی ڈانٹ ڈپٹ سہہ کر اور چند ہزار روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر ان سے زیادہ وقت کام بھی کرتا ہے اور اسے نا تو صحت کی سہولیات میسر ہیں نا ہی رہنے کو درمیانے درجے کی چھت ہے،مطلب ساری کی ساری قربانی عوام نے ہی دی ہے اور دینی ہے ہماری اشرافیہ صرف اور صرف قربانی مانگنتی ہے
یاد رکھو ظالم حکمرانوں ! جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں رب کی رحمت نہیں آتی
یہ جہاں تو عارضی ہے غریب لوگ تو اپنی زندگی کاٹ کر اس جہان سے چلے ہی جائیں گے اور جانا تم لوگوں نے بھی ہے سوچو وہاں کونسا ٹیکس لگا کر ریلیف لو گے؟