"لبرل ازم” کو جہاں تک میں نے سنا، پڑھا اور جانا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لبرل ازم یہودیت سے پیدا شدہ فضلات میں سے ایک ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کا یہودیت سے ایسا سخت ترین معرکہ ہے جو صبح قیامت ہی کو ختم ہو سکتا ہے اس سے پہلے اس کا تصور ممکن نہیں ہے. مطلب اسلام کے کسی نام لیوا کے لئے "لبرل ازم” کے تصور کا بھی حق نہیں ہے چہ جائے کہ وہ اس کا حامی ہو. اور اجازت ہو بھی کیسے؟ کیونکہ یہ "لبرل ازم” زبردستی کی "حریت” اور آزادی کا قائل ہے، جبکہ اسلام ایک ایسا مکمل نظام حیات ہے جس نے انسانیت کی زندگی کے ہر شعبے، ہر موڑ اور ہر مصیبت میں دستگیری کی ہے. زندگی کا ایک حصہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں مذہب اسلام اپنے ماننے والوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا نظر آیا ہو. اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام ایک پاکیزہ، صاف و شفاف نظام حیات ہے جس میں کسی طرح کی عریانیت، عیاری، مکاری، زنا کاری، سود خوری اور دیگر صفات رذیلہ کا کوئی مقام نہیں ہے. جبکہ "لبرل ازم” لوگوں کو ایسی "حریت” کا حامی بناتا ہے جس میں عریانیت اور لادینیت کو بنیادی مقام حاصل ہے.
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلام نے قرآن کریم کے ذریعے واضح الفاظ میں خواتین کو حجاب (پردے) کا پابند بنایا ہے. جبکہ "لبرل ازم” کے بنیادی ارکان میں سے” حریت” کا مقصد یہ ہے کہ” ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے اور اس زندگی کے طریقہ کار اور نہج کا بھی خود مختار ہے کسی کے قواعد و قوانین اس کے لئے ذرہ بے مقدار کی حیثیت رکھتے ہیں. چاہے وہ کسی سے اپنے تعلقات استوار کرے یا کسی سے بالکل بھی تعلق نا رکھے وغیرہ وغیرہ. بس اپنے اندر ودیعت کی ہوئی صفات و کمالات کو قوم کے سامنے اجاگر کرنا یہ مقصد اصلی ہے جس سے سرمایہ داری میں روز بروز اضافہ ہو اور زندگی گزارنے کے لئے تمام تر وسائل و اسباب مہیا ہوں”.
یعنی لبرل ازم کے اندر حریت کے ذریعے مکمل آزادی کا مطالبہ ہے. جبکہ اسلام نے بھی ہر انسان کو آزاد رہنے کا مکلف بنایا ہے مگر اس آزادی کو چند امور پر مشروط کیا گیا ہے جن کی بجا آوری ضروری ہے، اور یہ شرائط بھی قیود کے طور پر نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعے بھی انسانیت کی دستگیری ہی مقصود ہے. مثلاً خواتین کو مکمل آزادی ہے مگر اس کے لئے پردے کا اہتمام کرنا ضروری ہے. تو اب لبرلز یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ اسلام کے اندر عورتوں کو قید کر کے رکھا جاتا ہے تا آں کہ اسے اپنا چہرہ بھی دکھانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ مرد کو اس طرح کی کسی پابندی کا مکلف نہیں بنایا گیا. تو ان لوگوں کے لئے جواب یہ ہے کہ کہ آپ لوگوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے صرف ایک ہی جہت پر محنت کی ہے جبکہ اس کی ایک جہت اور بھی ہے کہ اسلام نے عورتوں کو پردے کا پابند بنایا ہے اس کے ساتھ ساتھ مردوں کو "غض بصر” (نگاہیں نیچی رکھنے) کا حکم بھی دیا ہے.
اسلام کے اس نظام سے مساوات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسلام نے اس حکم کے ذریعے عریانیت اور ننگے پن کا سد باب کیا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک شخص دوسرے کا مکمل احترام کرتا ہے. اس کے بر عکس مغربی تہذیب کا جائزہ لیا جائے تو ان کے یہاں کسی بھی طرح کی ترقی کا عریانیت کے بغیر تصور محال ہے. آپ کسی بھی شعبے (ڈپارٹمنٹ) کی جانب نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ وہاں عریانیت کا بازار گرم ہے حتیٰ کہ امور خانہ داری میں بھی اس عریانیت کو فیشن کا نام دیکر اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے زنا کاری عام سے عام تر ہوتی جا رہی ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ جس پردے کو اسلام نے مصلحت کے طور پر رکھا ہے اس کے فوائد کثرت سے معاشرے میں نمایاں نظر آتے ہیں. اور لبرلز کے یہاں سب سے اہم چیز "سرمایہ کاری” ہے چاہے اس کے لئے عریانیت کے لباس کو زیب تن کرنا پڑے. اور اس کے سب سے زیادہ تباہ کن اثرات خاندان پر مرتب ہوتے ہیں جہاں ماں باپ اولاد کی تربیت سے زیادہ سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ خود غرضی، لالچ، حرص اور حسد کا سیلاب پورے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے. عورتیں گھروں سے نکل کر بازاروں کی زینت بن جاتی ہیں اور عصمت و عفت کی چادریں چاک ہوجاتی ہیں. زنا اتنا عام ہو جاتا ہے کہ نکاح ایک نا معقول فعل نظر آتا ہے جیسا کہ ابھی چند دن قبل ایک نام نہاد بین الاقوامی شہرت یافتہ مسلم لبرل خاتون نے یہ زہر نکالا تھا کہ "معاشرے میں نکاح کی ضرورت ہی کیا ہے جب سارا نظام ایسے ہی چل رہا ہے”. حرامی بچوں کی تعداد کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے جیسا کہ امریکہ، سویڈن اور فرانس میں ہو چکا ہے. جہاں حالیہ سرویز کے مطابق زنا سے پیدا شدہ بچوں کی تعداد جائز اولاد سے کہیں زیادہ ہے. اور اس وقت یہ رجحانات مغرب تک ہی محدود نہیں ہیں. دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں غیر ثابت النسب بچوں کی تعداد دو ہزار ایک کے مقابلے میں 367 فی صد زیادہ ہے.اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی تہذیب کتنی غلیظ ترین تہذیب ہے.ایک طرف اسلام ہے کہ اس نے مرد و عورت دونوں کو پردے کا مکلف بنایا ہے اور دوسری طرف یہ نام نہاد صاف و شفاف تہذیب جس میں زنا کاری کو جائز ہی نہیں قرار دیا مزید برآں اس کے لئے مظاہرے کئے جاتے ہیں اور باقاعدہ یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ "ہر انسان خود مختار ہے، جس کے ساتھ چاہے جسمانی تعلقات استوار کر سکتا ہے”.
خلاصہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کو "لبرل ازم” کے تصور کا بھی حق نہیں ہے چہ جائے کہ وہ اس کا حامی ہو. یہ مغربی قوم روئے زمین کی غلیظ ترین قوم ہے کوئی اسلام کا نام لیوا اس سے متاثر نہ ہو بلکہ صحیح اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ ہو تاکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسلام سے دامن نا چھڑائے بلکہ ان تمام غلیظ تہذیبوں سے اپنے آپ کو بچا لے.
@The_salaar_786