قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ جو آپ کے اندر خدا تعالیٰ کا ڈر ہے یا خدا کے مقابلے میں اندیشہ ناکی ہے یا یہ احساس ہے کہ آپ کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے، اس سے انسان کو جو لباس حاصل ہوتا ہے، اُسے لِبَاسُ التَّقوٰی کہتے ہیں۔یعنی یہ کسی شلوار قمیض یا پتلون کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ تقویٰ کا لباس ہے جو آپ کے باطن کو ڈھانپتا ہے۔یہ کوئی لباس کی قسم نہیں ہے۔جو لباس ہم اپنے جسم کو ڈھانپنے کے لیے پہنتے ہیں اس میں تقویٰ کا ظہور تو ہو سکتا ہے کسی نہ کسی پہلو سے لیکن تقویٰ کا لباس اس طرح کا نہیں ہے کہ جسے آپ کسی درزی سے سلوا لائیں۔
اللہ تعالیٰ کے خوف سے آخرت کی ملاقات کے احساس سےاللہ تعالیٰ سے سچی محبت سے ہر مسلمان کو تقویٰ کا لباس اوڑھنا چاہیے۔اور اسی کا نام اسلام ہے۔اللہ کی سچی معرفت آپ نے حاصل کی اور آپ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس دنیا کے رشتے ہیں ،بہن ،بھائی، ماں ،باپ ایسی طرح میرا سب سے بڑا رشتہ میرے خالق کے ساتھ ہے ،میرے پروردگارکے ساتھ ہے ،زمین و آسمان کے بادشاہ کے ساتھ ہے وہی میرا معبود ہے اور میں اس کی مخلوق کی حیثیت سے اس کے بندے کی حیثیت سے زندگی بسر کروں گا۔ یہ تقویٰ ہے اور جب اس کا لباس اپنے باطن پہ پہن لیتے ہیں تو اس کا ظہور آپ کی چال ڈھال میں ہوتا ہے ،آپ کی گفتگو میں ہوتا ہے،آپ کے علمی معاملات میں ہوتا ہے۔یعنی یہ لباس ہماری روح نے اوڑھ رکھا ہوتا ہے ۔ یہ تو ہے تقویٰ کا لباس اب ہم ظاہری لباس کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام میں کوئی ظاہری لباس جو ہم اپنے بدن کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، مقرر کیا گیا ہے؟
اسلام نے کوئی لباس مقرر نہیں کیا۔لباس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کس معاشرت میں جیتے ہیں ،آپ کا ماحول کیا ہے،آپ کس زمانے میں ہیں۔ اہل عرب ایک لباس پہنتے ہیں،اہل عجم ایک لباس پہنتے ہیں۔ شروع شروع میں اہل عرب کے لوگ ہی ہندوستان میں آئے تھے لیکن عجم کے راستے سے آئے تھے تو بہت سی عجمی روایات ساتھ لے آئے۔یہ جو پاجامہ جسے سلوار/شلوار کہا جاتا ہے یہ ان ہی لوگوں کے لباس میں شامل تھا۔
یہ حضرت محمدﷺ کو بھی دکھایا گیا اور آپ نے پسند فرمایا۔لیکن خود آپﷺ تہمد استعمال کرتے تھے کیوں کہ آپ کے زمانے کا لباس یہی تھا۔
ہر قوم اپنا ایک لباس رکھتی ہے۔اسلام میں کوئی لباس مقرر نہیں کیا گیا لیکن لباس کے بارے میں اصولی ہدایت ضرور دی گئی ہیں کہ جو بھی آپ لباس پہنیں وہ حیا،شرم اور حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کہ کہا گیا ہےکہ شرمگاہوں کو ڈھانپنے والا لباس ہونا چاہیے۔وہ لباس کسی انگریز کا بھی ہو سکتا ہے،امریکی لباس بھی ہو سکتا ہے ہمارا پاکستانی لباس بھی ہو سکتا ہےعجمی کا بھی سکتا ہے اور عربی کا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں سلیقے سے شرمگاہوں کو ڈھانپا ہوا ہوناچاہیے۔
دوسری بات یہ کہ لباس کی کوئی ایسی قسم جو کسی دوسری قوم کا مذہبی شعار ہے ، مذہبی شعار بھی دو قسم کے ہیں ۔ایک تو یہ ہے کہ وہ مذہبی شعار کسی بدعت یا شرک پر مبنی ہے تو اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔
دوسری یہ کہ وہ کوئی اس نوعیت کی چیز تو نہیں لیکن مذہبی روایت سے پیدا ہو گیا ہے اس کے استعمال میں کوئی ہرج نہیں ہے۔لیکن اگر اس میں شرک ہے تو اجتناب کریں ،کیوں کہ یہ جتنے بھی لباس ہیں کسی قوم نے ایسے ہی ایجاد کیے ہوتے ہیں۔ان میں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں ، مثلاً موسم،علاقے کی روایات،لوگوں کے معاشی معاملات اور لوگ کاروبار کس طرح کے کرتے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ وہی تہمد سائیکل کے لیے کتنے مسائل پیدا کر دیتی ہے۔اس لیے کسی قوم کا لباس ان سب عوامل پر انحصار کرتا ہے۔
آج کل ٹائی کے بارے میں یہ بات مشہور ہےکہ یہ صلیب کا نشان ہے ۔ بہت سے لوگ ٹائی باندھنے کے خلاف ہیں۔ان کے نزدیک یہ اسلام میں جائز نہیں ہے ۔لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ٹائی صلیب کی علامت ہے۔
ظاہری لباس سے بڑھ کر تقویٰ کا لباس ضروری ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الاعراف میں آتا ہے کہ
(ترجمہ )اے آدم کی اولاد! ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے، جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہےاور زینت بھی اور تقویٰ کا لباس! وہ سب سے بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Shares: