میڈیا انڈسٹری پر بنی ویب سیریز ’لفافہ ڈائن‘ کا حال ہی ٹریلر جاری ہوا جسے اپنی منفرد اور بولڈ کہانی کی وجہ سے کافی شہرت حاصل ہوئی ٹریلر پر سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع کی کہ کیا اس طرح نیوز اینکرز کو پیش کرنا مناسب ہے؟ اس ویب سیریز کو 19 مارچ سے پاکستانی اسٹریمنگ ویب سائٹ ’اردو فلکس‘ پر دیکھا جا سکے گا۔

باغی ٹی وی :’لفافہ ڈائن‘ میں مرکزی کردار مشعل خان نے ادا کیا ہے جو کہ ایک ایسی نیوز کاسٹر بنی ہیں جو طاقت اور پیسے کی فیلڈ میں آنے کے بعد غلط رجحانات کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔

’لفافہ ڈائن‘ کو اس کی منفرد کہانی کی وجہ سے کافی سراہا جا رہا ہے، کیوںکہ اس میں خصوصی طور پر نیوز انڈسٹری کو دکھایا گیا ہے کہ وہاں کس طرح کچھ لوگ اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

عام طور پر ایسا خیال کیا گیا کہ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی کچھ معروف اینکرز و صحافیوں کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہوگی تاہم اب اس حوالے سے سیریز کے پروڈیوسر فرحان گوہر اور اداکارہ مشعل خان نے بھی وضاحت کردی۔

’لفافہ ڈائن‘ کے پروڈیوسر فرحان گوہر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں مذکورہ ویب سیریز بنانے کا خیال نیوز چینلز دیکھنے کے بعد آیا۔

ان کے مطابق وہ کئی سال سے ’لفافہ‘ صحافت کا سنتے آ رہے تھے تو انہوں نے اسی پر ویب سیریز بنانے کا ارادہ کیا اور پھر ’لفافہ‘ کے ساتھ انہوں نے ’ڈائن‘ کو ملا دیا۔

فرحان گوہر نے بتایا کہ ان سمیت کسی کے پاس ’لفافہ صحافت‘ کا کوئی ثبوت نہیں ہے مگر سب لوگ جانتے ہیں کہ ایسا صحافتی انڈسٹری میں ہوتا ہے۔

پروڈیوسر کے مطابق جب انہوں نے مذکورہ ویب سیریز بنانے کا منصوبہ بنایا تو ان کے ذہن میں متعدد خواتین صحافیوں کے چہرے آئے، جن کے حوالے سے ان سمیت ہر کسی نے بہت ساری کہانیاں سن رکھی ہیں۔

فرحان گوہر نے کسی بھی نیوز اینکر یا خاتون میزبان کا نام لیے بغیر بتایا کہ ان کے ذہن میں متعدد مشہور چہرے تھے۔

لفافہ ڈائن جیسے عنوان کے انتخاب پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ جب انسان لفافہ لے کر کام کرتا ہے تو اپنے پیشے کے خلاف کوئی کام کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتا ہے، چاہے وہ غلط اشاعت ہو یا غلط عمل ہو، جھوٹ بولنا ہو یا کسی کو مار دینا ہو یعنی وہ لفافہ لے کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔

فرحان گوہر نے کہا کہ اگر آپ جنسی ہراس کے اعدادوشمار لیں تو خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات مردوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں کیونکہ اس معاشرے میں مردانہ تسلط قائم ہے اور خواتین کو ایسی صورتحال میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ کہانی اس بارے میں نہیں کہ خواتین کام کے لیے یہ سب کرتی ہیں بلکہ ہمیں خواتین کو تحفظ دینا چاہیے نہ کہ ایسا معاشرہ بنائیں جہاں پر خواتین کو ایسی صورتحال میں دھکیلا جائے جہاں وہ مجبوراً ایسے کام کریں جو وہ عام صورتحال میں کبھی نہ کرتیں۔

’لفافہ ڈائن‘ کے حوالے سے مشعل خان کا کہنا تھا کہ جب انہیں مذکورہ سیریز میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئیں، کیوںکہ انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ مذکورہ کردار ہی ایسا موقع ہے، جس کی انہیں کافی عرصے سے تلاش تھی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’لفافہ ڈائن‘ میڈیا انڈسٹری میں خواتین کے غلط کردار کو دکھانے پر مبنی نہیں ہے بلکہ ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ صحافتی انڈسٹری کو خواتین کے لیے زیادہ محفوظ بنایا جائے۔

مشعل خان نے بتایا کہ ان کا کردار اتنا مظلوم دکھایا گیا ہے کہ ’لفافہ ڈائن‘ کو دیکھنے والے افراد سیریز کے اختتام تک ان کے کردار پر ترس کھائیں گے۔

اداکارہ کے مطابق انہوں نے بہترین کردار ادا کرنے کے لیے خود کو کئی ماہ تک کمرے میں بند کرکے تیاری کی اور شوٹنگ کے دوران وہ اتنا کانپتی تھیں کہ ہر کسی کو سچ میں محسوس ہوتا کہ انہوں نے نشہ کر رکھا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ میں نے بند کمرے میں یہ تصور کرنے کی کوشش کی کہ اگر میں سچ میں یہی فرد ہوتی تو میری ذہنی حالت کیا ہوتی۔ میں نے یہ تصور کیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے جو میں اس حد تک پہنچی اور میں کتنی اکیلی ہوں اور میرے لوگوں سے رابطے کیسے ہیں۔

مشعل خان کا کہنا تھا کہ یہ کردار کافی چیلنجنگ تھا گو کہ اسے ادا کرنے میں میری ذہنی حالت کافی بدل گئی تھی لیکن مجھے یہ کر کے خوشی ہوئی۔

خیال رہے کہ ’لفافہ ڈائن‘ میں مشعل خان کو ایک ایسی نیوز اینکر اور میزبان کے طور پر دکھایا گیا ہے جو اپنے اختیارات کا نہ صرف غلط فائدہ اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ مراعات کے بدلے حقائق کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

’لفافہ ڈائن‘ میں مشعل خان کے کردار کو سگریٹ و شراب نوشی بھی کرتے دکھایا گیا ہے جب کہ سیریز میں میڈیا انڈسٹری میں اسکینڈلز بنانے اور اسکینڈلز کو توڑنے مروڑنے کو بھی دکھایا گیا ہے۔

سرمد کھوسٹ کی فلم ’’زندگی تماشا‘‘ نے دو انٹرنیشنل ایوارڈز اپنے نام کرلئے

صبا بخاری نے شوبز انڈسٹری کا سیاہ چہرہ بے نقاب کر دیا

سائرہ یوسف اور شہروز سبزواری بڑی اسکرین پر ایک ساتھ نظر آئیں گے

Shares: