لونڈیاں اور غلام اسلام یا اسلام کی تعلیمات کا کوئی حصہ نہیں ہیں۔ یہ دنیا میں ایک مصیبت موجود تھی اور صدیوں تک موجود رہی۔ یہ کیسے پیدا ہوئی اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا تین بڑے ادوار سے گزری ہے۔ پہلے قبیلوں کی صورت میں لوگ منظم ہوئے اُس کے بعد پھر جاگیردرانہ تمدن پیدا ہوا بڑی بڑی ذمہ داریاں آ گئیں اور ایک زراعی زندگی پیدا ہوئی، اور اس کے بعد انڈسٹریل ریوولوشن ہوا اور آہستہ آہستہ دنیا کے اندر ایک تیسرا دور شروع ہو گیا۔ اب ٹیکنالوجی اور خاص کر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک چوتھے دور کی ابتدا کر دی ہے۔
جب قبائلی زمانہ تھا اس میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر چراگاہیں حاصل کرنے کے لیے،نخلستان حاصل کرنے کے لیے ، یہاں تک کے پانی ختم ہو جاتا تو حملہ کر دیتا تھا۔ جب کوئی کسی دوسرے قبیلے پر حملہ کر دیتا تو حملہ آور کو اگر شکست ہو جاتی تو جنگی جرم میں اس کے تمام مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ یعنی غلامی کی ابتدا یہاں سے ہوئی۔ اس کو کسی پیغمبر نے آ کر شروع نہیں کیا۔ لوگوں نے اپنی لڑائیوں میں جارحیت کرنے والے کوسزا دینے کا یہ طریقہ استعمال کیا کہ اگر تمہارا قبیلہ ہم پر حملہ آور ہوا تو ہم تمہارے تمام مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیں گے۔
جس وقت آپﷺ کی آمد ہوئی اس وقت عرب کی پوری معیشت غلاموں پر منحصر تھی۔ یعنی جو صورت اِس وقت سود کی ہے، آپ دیکھیں تو اس وقت سارا بینکاری اور انشورنس کا نظام سود پر کھڑا ہے۔ اگر میں یا آپ کوئی آدمی یہ کہے کہ سود بُری چیز ہے، ظالمانہ چیز ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے تو لوگ فوراً کہتے ہیں کہ اس کا کوئی متبادل لائیں پھر ہی اس کا خاتمہ ہو گا ورنہ تو معیشت ختم ہو جائے گی، دوسرے دن سارا سسٹم درہم برہم ہو جائے گا۔ تو جو اِس وقت بینکاری کے نظام کا معاملہ ہے گلی گلی بینک قائم ہیں بالکل یہی صورتحال آپﷺ کے دور میں غلامی کی تھی۔ ہر گھر میں غلام تھے ،وہی گھروں کے کام کرتے تھے، وہی کھیتوں میں کام کرتے تھے، وہی تجارت کے قافلے لےکر جاتے تھے۔ یہ برسوں سے لوگوں کے پاس تھے اور اُن کو بیچ بھی دیا جاتا تھا۔
قرآن مجید نے اس کو دو طرف سے ختم کرنے کا آغاز کیا۔ کسی بھی چیز کو ختم کرنےکے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز جہاں سے پیدا ہو رہی ہے اس کو بند کیا جائے، دوسری یہ کہ جتنی پیدا ہو چکی ہے اس سے نمٹا جائے۔ اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔
سورۃ محمد کو نکال کے دیکھیں، جتنے بھی غلام بنتے تھے جنگ میں بنتے تھے۔ یعنی جنگ ہوتی، قیدی پکڑے جاتے، عورتیں اور مرد غلام بنا لیے جاتے۔
پہلی جنگ جب مسلمانوں کو پیش آنے والی تھی تو بدر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا کہ یہ جنگ پیش آنے والی ہے اور اس جنگ کے بعد جب قیدی پکڑ لیے جائیں گے تو ان کے معاملے میں غلامی کا کوئی تصور نہیں ہو گا۔ اس کے بعد دو ہی طریقے جائز رہے، ایک یہ ہے کہ آپ فدیہ لے کے اُن کو آزاد کر دیں، دوسرا یہ کہ احسان کے طور پر چھوڑ دیں۔ اس طرح سے غلامی کے پیدا ہونے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
اب صرف وہ غلام بچے جو پہلے سے غلام تھے، لوگ ان کو پہلے ہی خرید چکے تھے اور وہ ان کے گھروں میں برسوں سے تھے۔ ان کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا کہ آج کے بعد سب آزاد ہیں، تو آپ جانتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟ غلام عورتیں اور مرد بے گھر ہو جاتے، کسی کے پاس چھت نہ رہتی، کسی کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہ رہتی کیوں کہ ان کی ساری زندگی کا انحصار اُن کے مالکوں کے اوپر تھا۔ عورتیں جسم فروشی پر مجبور ہو جاتیں اور مرد بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے۔
تو اس کے لیے اسلام میں کیا طریقہ استعمال کیا گیا؟
قرآن مجید میں بتایا گیا کہ سب سے بڑی نیکی غلاموں کو آزاد کرنا ہے۔ تاکہ لوگ اس کو نیکی سمجھ کر غلاموں کو آزاد کر دیں ۔ اور ایسا ہی ہوا لوگ غلام آزاد کرنے لگے یہاں تک کہ زیادہ نیکی حاصل کرنے کے لیے غلام خرید کر آزاد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گویا جو موجودہ غلام تھے ان کی آزادی کی ایک تحریک چل پڑی۔
اس کے بعد قرآن مجید نے ایک دوسرا حکم دیا اور آپﷺ نے اس کو نافذ کیا۔ وہ حکم یہ تھا کہ نفسیات کو بدلا جائےاور یہ کہا گیا کہ اب غلام اور لونڈی کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس کی جگہ مرد اور عورت کے الفاظ استعمال کیے گئے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا جتنے بھی ذی صلاحیت غلام ہیں ان کی شادیاں کروائی جائیں۔ تاکہ ان کے گھر آباد ہوں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی راستہ نکالیں۔
پھر مذہبی لحاظ سے لوگوں سے جتنے گناہ ہو جاتے تھے ان کے کفارے کے طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ پھر وہ وقت آ گیا جب یہ حکم دے دیا گیا کہ جو خود کھاؤ گے ان کو کھلاؤ گے اور جو خود پہنو گے وہ ان کو پہناؤ گے۔مقصد یہ تھا کہ لوگ یہ نہیں کر سکیں گے تو غلام آزاد کر دیں گے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے چلے جائیں۔
اس کے بعد لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ جن لونڈیوں کی اخلاقی حالت اچھی ہے اور وہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو ان سے شادی کر لیں۔قرآن مجید میں سورۃالنساء میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔
اس طرح کی اور بہت سی اصطلاحات کرنے کے بعد آخر میں سورۃالنور میں یہ حکم دے دیا گیا کہ اب ہر لونڈی اور غلام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ مجھے ایک سال یا چھ مہینے، جتنا وہ مناسب سمجھیں اس کی مہلت دے دی جائے، تاکہ اس عرصے میں وہ کما کر اپنی قیمت ادا کر دیں۔
کوئی غلام اپنی کمائی کا مالک نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی گویا ان کی آزادی کا پروانہ ان کے ہاتھوں میں پکڑا دیا گیا کہ اپنی تقدیر کے پروانے پر خود دستخط کر لو۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ اس مہلت میں پتا چل جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ طریقہ اسلام نے اختیار کیا یعنی ایک طرف غلام بنانے پر پابندی لگا دی اور دوسری طرف آزادی کی راہ اس طرح کھول دی۔ کیااس سے بہتر کوئی طریقہ بُرائی کو ختم کرنے کا ہو سکتا ہے؟ اس لیے ہمیں فخر کے ساتھ اس کو بیان کرنا چاہیے۔
twitter.com/iamasadlal
@iamAsadLal