آج صبح میئو اسپتال لاہور میں جانا ہوا. وہاں OPD پر پرچی کے لیے لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں. خواتین کی لائن میں بھی خواتین کی کثیر تعداد تھی اچانک ایک کالے کوٹ اور سفید سوٹ میں ملبوس خاتون (ان کے میک اپ اور شکل پر تبصرہ نہیں کیونکہ وہ ذاتی معاملہ ان کا) لائن کو کراس کرتے ہوئے بالکل فرنٹ پر آن موجود ہوئیں. وہاں پہلے سے موجود خواتین جو بےچاری لمبے انتظار کے بعد آگے پہنچی تھی ان کو غصہ آیا اور انہوں نے "کالے کوٹ” والی محترمہ کو روکنا چاہا…
اسی اثنا میں سیکیورٹی پر معمور نوجوان آگے آیا اور اس نے ان محترمہ سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہی ہیں تو محترمہ نے کہا میں نے پرچی بنوانی ہے. سیکیورٹی والے نوجوان نے کہا کہ باجی آپ لائن کے پیچھے تشریف لے جائیں اور اپنی باری پر آکر پرچی بنوائیں تو کالے کوٹ میں ملبوس خاتون نے جو جواب دیا وہ "آب زر” سے لکھوا کر ہر عدالت اور ہر وکلاء بار کے دروازوں پر آویزاں کرنے کی ضرورت ہے …

محترمہ نے باآواز بلند "فرمایا” بلکہ دھاڑا کہ ” میں ایڈووکیٹ ہوں میں اب لائن میں لگوں گی کیا” ….

قانون پڑھنے پڑھانے والوں، قانون کی بالادستی کے نعرے لگانے والوں اور قانون کی کمائی کھانے والوں کا یہ وہ رویہ ہے جو قدم قدم پر آپ کو باور کرواتا ہے کہ وہ "اعلیٰ ارفعٰ” ہیں اور باقی عوام کمی کمین ہے. یہ جب چاہتے جہاں چاہتے بدمعاشی شروع کردیتے ہیں. پنجاب انسٹیوٹ پر ان کا حملہ ایسے تھا جیسے کوئی فاتح لشکر کسی مقبوضہ علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے.
یہ رویہ درست ہوئے بغیر معاشرے کی اصلاح اور ترقی ناممکن ہے. کوئی قانون ان قانون دانوں کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے بھی ہونا چاہیے.

محمد عبداللہ

Shares: