ماں کی نافرمانی کا عبرتناک واقعہ تحریر:محمد سدیس خان

0
530

والدین میں سے ماں کا حق اور درجہ زیادہ ہے۔ اس لیے اس کی نافرمانی دنیا ہی میں برا انجام دکھا دیتی ہے۔ ذیل کے واقعہ کو بغور سنو اور میرے پیغام کے طور پر قبول کرو۔
ایک نوجوان کو حج کا شوق ہوا اس کی ماں اس کو سفر کی اجازت نہ دیتی تھی چنانچہ وہ بدون اجازت ہی کے حج کو چلا گیا۔
راستہ میں چوروں نے اسے پکڑا اور سارا مال اور اس کازادوراحلہ سب چھین لیا اور اس کے دونوں ہاتھ پاؤں کاٹ کر وہیں راستہ پر چھوڑ دیا۔
بیت اللہ کے مؤذن کو خواب میں اشارہ غیبی ہوا کہ اٹھو اور فلاں جنگل میں جاکر فلاں جوان کی خبر لو کہ مجھ کو اس پر رحم آتا ہے ( یعنی اس نے گو ایک بڑی غلطی کی ہے مگر چونکہ میرے ہی دربار میں آرہا تھا اس لیے مجھے بھی اس کی خاطر منظور ہے) چنانچہ وہ مؤذن نیند سے بیدار ہوا اور بتائے ہوئے جنگل کی جانب روانہ ہوگیا۔
وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان پڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ وپیر کٹے ہوئے ہیں اس نے پوچھا کہ اے شخص یہ تیرا کیا حال ہے؟
اس نے کہا میں نے والدین سے اجازت لیئے بغیر راہ کعبہ میں قدم رکھا اس لئے میرا حال یہ ہوا جو تیرے سامنے ہے تاکہ بندگان خدا کو عبرت ہوکہ والدین کا بڑا حق ہے ان کی اجازت کے بغیر حج کے لیے بھی جانے میں ایسا معاملہ پیش آتا ہے چہ جائیکہ ان کو ناحق ایذاء دینا اور برا بھلا کہنا اس کا تو انجام کار بہت ہی برا ہے۔
یہ سن کر اس مؤذن نے کہا کہ خیر جو ہوا سو ہوا اب سے توبہ کرو۔ اس نے صدق دل سے توبہ کی اور مؤذن سے درخواست کی کہ مجھ کو میرے ماں کے پاس پہنچا دے تا کہ اس کو راضی کروں اور جس طرح سے ایک بار حماقت کرکے اپنے سفر حج کو کھوٹا کیا ہے اور ہاتھ پاؤں سے محروم ہوگیا ہوں ایسا نہ ہو کہ دم آخر ایمان سے ہی محروم ہو جاؤں اور سفر آخرت کو کھوٹا کرلوں۔
مؤذن نے یہ سن کر اس کو اٹھایا اور اس کے وطن لے جاکر اس کے ماں کے دروازہ کے پاس اس کو بٹھادیا اور خود واپس ہوگیا۔
اس کی ماں اندر بیٹھی تھی جوان نے سنا کہ وہ یوں دعاء کررہی تھی کہ الہی میں نہیں جانتی کہ اس سفر میں میرے بچے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا کیونکہ وہ بغیر میری اجازت کے چلا گیا ہے۔ اب تو اسکو مجھ تک پہنچا دے کہ میرا دل اس کے لیے بے قرار ہے۔
جوان بھی ماں کے ان کلمات کو سن کر بلبلا گیا اور اپنے کٹے ہاتھ سے دروازہ کھٹکھٹایا ، ماں اندر سے بولی کہ ارے یہ کون ہے جو بیوی اور غمزدہ کے دروازہ کو کھٹکھٹایا رہا ہے۔
پھر خیال کیا کہ شاید کوئی میرے مسافر بچے کی خبر ہی لایا ہو یہ خیال کرکے اٹھ کر باہر آئی دیکھا کہ ایک غریب فقیر سا آدمی بیٹھا ہوا ہے کہا کہ اے مسافر غریب آگے آ! اگر تجھ کو روٹی کی ضرورت ہوتو میں روٹی دوں۔
اس نے کہا میں روٹی کیسے لوں میرے تو ہاتھ ہی نہیں ہیں اس نے کہا اچھا ذرا آگے آ! کہا آؤں کس طرح میرے تو پاؤں بھی نہیں ہیں۔
اس غریب کی یہ بات سن کر بیوہ کو اس پر بہت ترس آیا کہا اے جوان غریب! تیری آواز تو میرے بیٹے سے بہت ملتی جلتی ہے۔
چنانچہ وہ دوڑ کر چراغ لائی اور آگے پیچھے سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔ اس کو دیکھ کر اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوئی، وہ کہتی جاتی تھی کہ تیرے ہی طرح میرا بھی ایک بچہ تھا بغیر میری اجازت کے وہ حج کے لیے چلا گیا ہے میں نہیں کہہ سکتی کہ سفر میں اس کا کیا حال ہوا۔
ماں کے منہ سے یہ کلمات سن کر وہ جوان صبر نہ کرسکا اور پھوٹ کررونے لگا اور کہا اے ماں وہ بیٹا تیرا میں ہی ہوں، تیری حق تلفی میں نے کی اس کا یہ انجام ہوا۔ ماں نے جب یہ سنا تو ایک ہائے کی اور بیہوش ہوگئی۔
تھوڑی دیر بعد جب ہوش آیا تو آسمان کی جانب منہ کیا اور دعاء کی کہ الہیٰ! تو نے اس کو کیے کی سزادی اور ادب دیا لیکن پروردگار اس کو ہلاک نہ کی جیو اور ایمان کی سعادت سے اسے محروم نہ رکھنا۔
غرض اس واقعہ کے بیان سے یہ ہے کہ تم سمجھو کہ ماں باپ کی خوشی عجیب چیز ہے اور ان کی نافرمانی بہت ہی وبال کی چیز ہے۔
Twitter : @msudais0

Leave a reply