ماں — نعیم گلزار

0
55

بائیس تئیس برس قبل کی بات ہے۔ ماں جی سے لڑائی کے نتیجے میں گھر سے بھاگا اور لاہور جا نکلا۔ وہاں کچھ عرصہ انڈر ورلڈ کے لوگوں کے ہتھے چڑھا رہا۔ پھر کچھ اس ماحول سے اکتاہٹ، کچھ لاہور شہر کی نفسا نفسی اور پھر ماں جی کی یاد۔۔ ان تمام عوامل نے مجبور کیا تو واپس گھر بھاگ آیا۔

واپس آکر دوبارہ نئے سکول میں داخلہ لیا تو میرا تعارف وکی سے ہوا۔ وکی کا گاؤں میرے گاؤں سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پہ تھا۔ وکی خبطی سا تھا۔ جلدباز طبعیت، ہر وقت کھپتے رہنا، باتیں زیادہ اور پڑھائی کم کرنا، اسکے مزاج کا حصہ تھا۔ البتہ اسکو پیسہ کمانے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے جتنی اس سے چڑ ہوتی تھی۔ وہ اتنا ہی میرے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ مالی حالات بھی اسکے مخدوش سے تھے۔ جسکی وجہ سے وہ کالج نہ جا سکا۔ جبکہ ہم آگے ایف ایس سی میں چلے گئے۔ بعد میں ہنگامہ زیست میں کبھی اسکی خبر ہی نہ لگی کہ وہ کن حالات میں ہے۔ بیس سال بعد اک شادی پہ ملاقات ہوئی تو ایک عدد کار کے ساتھ وہ اب سر ملک وقاص بن چکا تھا۔ شاید کہیں اس نے مقولہ پڑھ لیا تھا۔

” علم بڑی دولت ہے۔”

پھر اسی مقولے کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے کوئی پرائیویٹ سکول بنایا اور بعد میں بناتا ہی چلا گیا۔ استفسار پہ پتہ چلا چھ کے قریب پرائیویٹ سکول اس وقت چلا رہا ہے۔ پیسے کی طلب اب بھی اسکی گفتگو میں واضح جھلک رہی تھی۔ اور بیس سال کے بعد بھی اسکی جلدباز طبعیت میں کوئی ٹھہراؤ نہیں آیا تھا۔ رہائش بھی بیوی بچوں سمیت اس نے شہر میں رکھ لی تھی۔ البتہ اسکی ماں اب بھی گاؤں میں ہی رہ رہی تھی۔

آج میں اپنے گاؤں سے متصل قصبہ کے مین اڈے پہ کھڑا کچھ خرید و فروخت کر رہا تھا۔ کہ یکایک اک کار میرے پاس آ کر رکی۔ ٹو پیس سوٹ کے ساتھ ملک وقاص صاحب اندر سے برآمد ہوئے۔ مجھے دیکھتے ہی جپھی ڈالی اور کہنے لگا:

نیمے یار۔۔ اچھا ہوا تو مل گیا۔ مجھے بہت جلدی ہے۔ ماں جی ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہیں۔ انکو گاؤں پہنچانے کے لیے کوئی رکشہ کروا دو۔ کچھ دفتری امور نپٹانے ہیں، میں واپس جا رہا ہوں۔ تین سو روپیہ کرایہ میں نے ماں جی کو دے دیا ہے۔

یہ سن کر میری آنکھیں تو ساکت رہیں البتہ میں نے کار میں جھانکا تو ماں جی کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔۔۔۔!!!!

Leave a reply