ماں…وفاؤں کی جہدِ مسلسل…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
لفظ ماں زبان سے ادا ہوتے ہوئے بھی ایک گہرا احساس رگ و پے میں چھوڑ جاتا ہے…
وہ ہستی جو ہم جیسوں کو نو ماہ پیٹ میں اُٹھا کر اذیتوں پہ اذیتیں سہتی ہے…
مگر زبان پر شکوہ نہیں لاتی…
پھر جنم دے کر اک ایک سانس کی نگرانی کرنے والی ماں بچے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں نڈھال ہو جاتی ہے…
جس کی رات کی نیند اور سکون،تمام ناز اور نخرے اس تربیتی توڑ پھوڑ کے بعد بکھر کر رہ جاتے ہیں اور وہ ایک نئی زندگی کے آغاز میں قدم رکھ دیتی ہے…
اس کے رہنے سہنے کے انداز بدل جاتے ہیں اور اسے صرف ایک ہی غم ستائے رکھتا ہے کہ میری اولاد کسی نہ کسی طرح منزل سے ہمکنار ہو جائے۔
باپ کماتا ہے گھر سے دور،بہت دور رہ کر بھی لیکن اولاد کی پرورش اور تربیت میں جس قدر قربانی ماں دیتی ہے، لاریب اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو ماں کی عظمت کا احساس رکھتے ہیں اور دنیا میں موجود اپنی اس جنت کی عزت ،رفعت اور خدمت کا حق ادا کرتے ہیں۔
لیکن فی زمانہ اس فکر میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے کہ ماں کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
بیٹے تو الگ رہے،بیٹیاں بھی ماں کی عظمت کو صحیح طریقہ سے سمجھ نہیں پاتیں۔
ماں وہ شجرِ سایہ دار ہے جہاں دمِ آخر تک خزاؤں کا گزر نہیں ہوتا…
پیار کا وہ سمندر جس کی گہرائی کو ناپنا ممکن نہیں ہے…
جس کی روح میں محبت اور مہربانی کا خمیر گندھا ہوا ہے…
انسانیت کا پہلا مکتب ماں ہے…
پھول سے زیادہ مہک رکھنے والی ہستی،جس کی عظمت کی بلندی کو آج تک کوئی ماپ نہیں سکا…
یہ ماں تو نام ہی ممتا،راحت،ٹھنڈک،سکون اور آسودگی کا ہے…
جس کے بوڑھے ہاتھوں کا لمس چہرے پر تازگی اور سینے میں ٹھنڈ بھر دیتا ہے…
میں اکثر جب بیمار ہو جاؤں تو کثرت سے مسنون دعائیں یاد ہونے کے باوجود خود دم کرلیتی ہوں لیکن حیرانگی کا عالم ہے کہ جب ماں ہاتھ پھیرتے ہوئے چند دعائیں ہی پڑھ دیں تو تپتے بخار سے بھی آنکھیں کھلنے لگتی ہیں۔
یہ بات مجھے اس قدر شدت سے جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے اور زیادہ دعاؤں کے یاد ہونے کا فخر دم توڑنے لگتا ہے کہ واقعتًا دعا کی قبولیت،مقام،مرتبہ،پارسائی اور عظمت کو بھی دیکھتی ہے…
اور ماں کے مرتبہ اور محبت پر آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔
میں نے اس بات کو کثرت سے نوٹ کیا ہے…
کوئی چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑے سے بڑا…
اپنے تئیں بہت کچھ سمجھنے کے باوجود میں نے ماں کی دعا کے بغیر حل ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔
ماں وہ بلند درجہ رشتہ ہے جسے دعاؤں اور مسیحائی کی قوت ملی ہے۔
کتنی حیسن پکار ہے یہ ماں کہ جس کی ناراضگی جنت کی چابی گم کر دینے کے مترادف ہے…
ماں محبت و اُمید کا رواں دریا ہے،جس کا غصہ صرف اور صرف وقتی ہوتا ہے، اس مطلبی اور بے مہر کھوکھلی دنیا میں رحم کا موجزن سمندر دل میں لیئے بہت جلد مان جانے والی ہستی ہے۔
ماں کی تعظیم شاہ و فقیر تک سب کے لیئے یکساں لازم ہے۔
دنیا میں بڑے سے بڑے مرتبہ پاکر بھی انسان اس ہستی سے غافل نہیں رہ سکتا…
کہیں یہ حکم نہیں ملا کہ اگر تم بہت مصروف ہو جاؤ تو ماں باپ کو چھوڑ دو…
نہیں…!!!
ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہ آنے پائے،اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو ایسا بندوبست کرنا لازم ہے کہ والدین پریشانیوں کا سامنا نہ کرنے پائیں…!!!
آج اکثریت تو پڑھائی اور نوکری کے نام پر سالہا سال والدین سے جدا رہتی ہے۔
اگر چہ رابطے تو آسان ہیں مگر خدمت کا الگ معیار ہے…
کئی لوگ شادی کرنے کے بعد ماؤں کو بوجھ تصور کر لیتے ہیں اور بیویوں کے بھڑکانے پر آئے روز ماؤں سے لڑائیاں کرتے اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں…
کئی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں…
کئی بد قسمت تو تشدد پر بھی اُتر آتے ہیں…
العیاذ بااللہ بھاری بھرکم ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں…
ایک دفعہ سنا تھا کہ ایک ڈگری ہولڈر بیٹے نے ماں کو گولی مار دی…
یعنی کس قدر عدم برداشت کے رویے ہیں جو ہماری سوسائٹی میں ترویج پاتے جا رہے ہیں اور آج کی ہائپر اولاد اچھے،برے کی تمیز سے تہی دست دکھائی دیتی ہے۔
جنہیں ان کی عظمت کا اعتراف ہے، انہیں تو ہے ہی…لیکن معاشرے کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔
منبر و محراب سے لے کر…درسگاہوں اور اعلٰی تعلیمی اداروں تک والدین کے مقام و مرتبہ کی اہمیت ذہنوں میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے۔
زندگی کے کسی بھی موڑ پر ان کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہنے کی تربیت درکار ہے۔
دین کے معاملے میں اگر والدین ہم نوا نہ بھی ہوں تو دنیوی معاملات میں ہر صورت حقوق ادا کرنے اور ساتھ نبھانے کی تعلیم ہے۔
ان کی بات کو باقی تمام خواہشات پر فوقیت دینے کی ضرورت ہے…
ان کی قربانی کے سفر کی لاج رکھنے کی ضرورت ہے…
ان کی اُمیدوں پر پورا اترنے اور ان کی تھکاوٹ کو سکون سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اولاد اُن کی اُمیدوں پر پانی ہی پھیر دے…انہیں رُلا دے،تڑپا دے…!!!
بات بے بات تنگ کرے،ناجائز اور ناممکن مطالبات کرے…
یہ تمام چیزیں کسی بھی کردار اور خوشگوار زندگی کے لیئے گہرا ناسور ہیں…!!!
وہ اپنا سب کچھ لٹا آتے ہیں اولاد کو جوانی کی دہلیز پار کرانے تک…!!!
اپنی جوانی،اپنا مال،وقت اور صلاحیتیں سب نچھاور کر چکے ہوتے ہیں…
ان عظیم محسنوں کے اسی مقام کی وجہ سے خالقِ کائنات نے عرش سے کہا:
فلا تقل لھما اُفِِ ولا تنھرھما و قل لھما قولًا کریما¤
[بنی اسرائیل:23)۔
آہ جنہیں اف تک نہ کہنے کا حکم ملا تھا۔
جن سے بات بھی انتہائی باادب اور عاجزانہ لہجے میں کرنا تھی،ہم انہیں جھڑکتے ہیں…؟؟
وہ ہاتھ جو نرمی سے ہمارے گالوں اور سروں پر پھیرے جاتے تھے ہم انہیں جھٹکتے ہیں؟
جو تھپکیوں سے ہمیں سکون فراہم کرتے تھے نوجوان اولاد ان پہ ہاتھ اُٹھا لے…
یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟
سفرِ زندگی میں چلتے چلتے اکثر ایسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ کئی والدین کی طرف سے عدم مساوات اور تفریق کا رویہ سامنے آتا بھی ہے تو بہر حال اولاد کا فرض ہے کہ وہ درگزر کرے،خاموشی اختیار کر لے…
اللّٰہ تعالٰی ضرور راہیں کھول دیتا ہے،دلوں کو بدلنا اسی کی قدرت ہے…!!!
لیکن اولاد والدین کے مقام و مرتبہ پر سودے بازی کبھی اور کبھی نہ کرے…!!!
اپنے بازو جھکائے رہے…
اپنے ہاتھ پھیلائے رہے…
دعاؤں کی سوالی رہے…
ترشی و بد اخلاقی کو چھوڑ دے…
شکوؤں اور غلط حرکات سے خود کو بچائے رہے…
کوئی معذرت بھی کرنا چاہے تو نہایت عمدگی و نرمی سے…
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللّٰہ تمہیں تمہاری ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،
پھر تمہاری ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،،
پھر تمہیں تمہاری ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے…!!!(رواہ البخاری فی الادب المفرد)۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…!!!
میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
آپ نے فرمایا:
تیری ماں…
پوچھا اس کے بعد؟
فرمایا:
تیری ماں…
پھر پوچھا اس کے بعد کون؟
فرمایا:
تیری ماں…
اس نے پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟
فرمایا:
تمہارا باپ…!!!
(صحیح بخاری کتاب الادب)۔
اللّٰہ اکبر…
اتنی بھاری ذمہ داری کو آج اولاد کیسے نبھا رہی ہے؟
اہلِ دانش پہ کچھ پوشیدہ نہیں ہے…!!!
یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے…
یاد رکھیں کہ والدین کے جھڑیوں زدہ چہروں پر آنسو جھلملاتے اچھے نہیں لگتے بلکہ ان کی دور اندیش آنکھوں میں خوشی کی چمکتی کرنیں بھلی لگتی ہیں اور اس کا احساس ہم میں سے ہر اولاد کو اپنے دل اور کردار میں بیدار کرنا ہو گا…!!!
کہ ماں:
تری محبتوں کے بحر وبر…
تری اداؤں کے سب ثمر…
تری وفاؤں کا یہ سفر…
کیسے ہو مجھے اس سے مفر…؟
تیرا ضبط و ربط کمال ہے…
ترا لہجہ حُسن و جمال ہے…
افکار بلند،ارفع خیال ہے…
ترے مقام کو نہ کوئی زوال ہے…!!!
ترے گزرتے پَل زندگانی کے…
اور مٹتے آثار جوانی کے…
ترے لڑھکتے قدموں میں مگر…
رنگ عزم کی جولانی کے…!!!
ہر سانس کے سنگ تو…
دے جو دعاؤں کی خوشبو…
ترے کپکپاتے ہونٹوں پہ…
لکھی ہے جو تحریرِ آرزو…!!!
تو اولاد کے درد کی رہی درماں…
تو بلاؤں کی زد سے ہے اماں…
ترے لہجہ کا ہے انداز ہی اور…
تو بدلے سے بے پرواہ ہے "ماں”…
ماں تری وفاؤں کا چاہیئے ساتھ…
ماں کیسے کٹے سفر یہ خالی ہاتھ…؟
ترے مشوروں کی جاری رہی گر برسات…
تو ماں یقیں ہے سدھر جائے گی ہر بات…!!!
ترے دامن کو تو جو جھٹک کر چلیں…
سچ ہے کہ ہر گام وہ ہاتھ ہی مَلیں…!!!
ماں ترے بن ہو کیسے صرف اک دن…؟
ماں یہ خیال ہی تڑپائے روح وبدن…!!!
ماں مری زندگی کا ہر لمحہ رہے ترے نام…
ماں بس ترے ہی سنگ گزریں… میری زندگی کے یہ صبح و شام…
ماں بس تری دعاؤں کی پونجی میری ہم سفر ہو…
ماں یقیں ہے کہ پھر کسی بَلا کا نہ گزر ہو…!!!
یاد رکھیں کہ ماں باپ کی مسرتیں اور خوشیاں پوشیدہ ہوتی ہیں،اور وہ اپنے غموں اور اندیشوں کا اظہار بھی نہیں کرتے…!!!
ان کے بے غرض دامن میں برکتیں ہی برکتیں ہوتی ہیں کہ جہاں شبنم گرے تو لعل بن جائے اور پتھر قیمتی جواہرات…!!!
ان کی دعاؤں سے تہی دست انسان کچھ بھی نہیں…ہاں کچھ بھی نہیں…
اور یہ درد شدت بن کر تب ستاتا ہے اور ضمیر پر گہری ضربیں لگاتا ہے کہ جب یہ ہمیں چھوڑ کر کہیں دور منوں مٹی تلے تھک ہار کر سوجاتے ہیں…
خدارا…ان کی قدر کیجیئے کہ یہ امتحان تھوڑے وقت کے لیئے ہوتا ہے لیکن اس کے مثبت یا منفی نتائج بہت طویل ہوا کرتے ہیں…!!!
==============================
[جویریات ادبیات]۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

Shares: