مدارس میں طباء کے لئے تمام الہامی کتابوں اور صحیفوں کی تعلیم انتہائی ضروری کیوں؟ بقلم: ابوتراب مغل

مدارس میں بائبل کا نہ پڑھایا جانا۔جبکہ مسیحی مدارس میں قرآن کا پڑھایا جانا۔ہمارے مولویوں کے منہ پر ہمیشہ کالک مل دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انڈو و پاک کے دینی مدارس میں قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سب کی تعلیم عام ہے۔ مزید ہر فرقے کا ایک الگ مدرسہ ہے اور ہر مدرسہ دوسرے فرقے کے خلاف نصاب تعلیم بھی رکھتا ہے۔ ہر مدرسے میں مخالف فرقے کے خلاف تربیت عام ہے۔ لیکن انہی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کی اکثریت بائبل، اسکے عہد نامہ جدید و قدیم پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہے۔ مطلب ایک دوسرے کے خلاف تو مناظرانہ و جارحانہ انداز پائے جاتے ہیں لیکن مسیحی دنیا کے دلائل کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات ہی نہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور استبدار میں جب عیسائی مبلغین جو قرآن پڑھ پڑھ کر یہاں مناظرے کرنے آئے ان کے سامنے سینکڑوں مولوی شکست کھا گئے کیوں؟ اسی لیے کہ ان مولویوں نے کبھی بائبل یا دیگر الہامی کتب کے موجودہ صحیفوں کا کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا۔ عیسائی قرآنی دلائل کو مسخ کرکے کامیاب ہورہے تھے اور مولویان ہندو و پاک بائبل کے عدم مطالعے کے باعث زچ ہورہے تھے اور آج بھی مدارس کے مولویوں کی اکثریت ایسی ہی ہے۔ یعنی باہمی نفرت انگیز فرقہ وارانہ مناظروں میں بڑے شیر ہوتے ہیں لیکن کافروں کے سامنے دلائل دینے سے بالکل عاری بلکہ اس میدان میں سفید چٹے کورے جہلا بن جاتے ہیں۔ مدارس کے نصاب کو یا تو ری شیڈول کرو یا دوران تعلیم طلباء کو ایسا فہم اور آگاہی دو کہ وہ تحریف شدہ کتب سابقہ کا مطالعہ کریں تاکہ علمی میدان میں مستشرقین کا مقابلہ کرنیکی اہلیت رکھتے ہوں۔ حفاظ قرآن، شیوخ الحدیث اور اصحاب فقہ سے وہ مسلمان عالم کئی درجے بہتر ہے جو کفار سے مناظرہ کرنیکی صلاحیت رکھتا ہے۔

بقلم: ابوتراب مغل

Leave a reply