مغفرت یا ذلت، میرامقدر کیا؟؟؟ فیصلہ ہو نا باقی ہے، تحریر: محمد نعیم شہزاد

0
54

مغفرت یا ذلت، میرامقدر کیا؟؟؟
فیصلہ ہو نا باقی ہے

محمد نعیم شہزاد

افطار سے کچھ قبل سبزی والے کی دوکان کے سامنے موڑ کاٹتے ہوئے اچانک سامنے سے تیز بائیک گزری تو جلدی سے بریک لگاتے ہوئے اس کمسن لڑکے کو گھورا جو بجلی کی سی تیزی سے بائیک پر گزرا تھا۔
"السلام علیکم سر”
بائیک پر سوار لڑکے نے مڑ کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ ہی غصہ ٹھنڈا پڑ گیا اور ماتھے کی سلوٹوں کی جگہ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
یہ عارف تھا، ابھی تین برس پہلے ہی کی تو بات ہے، میرے پاس پڑھا کرتا تھا۔ اس کی ساری شرارتیں اور کام مکمل نہ ہونے کے بہانے میرے ذہن میں گردش کرنے لگے اور میں نے مسکرا کر اس کے سلام کا جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔

آج رمضان المبارک کی پچیسویں رات ہے۔ عظمتوں اور رحمتوں والا رمضان المبارک ہم سے رخصت ہونے والا ہے، فوراً سے اس خیال نے سوچنے پر مجبور کر دیا۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ لهُ(صحيح الأدب المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
صحیح بخاری اور بعض دیگر کتب احادیث میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمنبر پر چڑھتے ہوئے تینوں زینوں پر آمین کہا۔ اس میں ہے کہ پہلے زینے پر جبریل امین آپ کے سامنے حاضر ہوئے اور گویا ہوئے کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اورپھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔
کس قدر قیمتی لمحات ہم سے گزرنے کو ہیں مگر کیا ہمیں ان کہ اہمیت کا احساس و ادراک ہے؟ پانچ، چھے دن بعد یہ ماہ مبارک ختم ہو چکا ہو گا اور وقت ضائع کرنے والے سوائے ندامت کے کچھ نہ پائیں گے۔

امام ابن القيم رحمه الله فرماتے ہیں :

"أغبى الناس مَنْ ضَلَّ في آخر سفره وقد قارَبَ المنزل !”

بیوقوف ترین شخص ہے وہ جو سفر کے آخر میں بھٹک جائے جبکہ منزل قریب ہی ہو!
[ فوائد الفوائد : ١٠٧ ]

اس کے ساتھ ہی اس خیال نے امید جگا دی کہ جب میں ایک استاد ہونے کے ناطے اپنے شاگرد کو سامنے دیکھ کر غصہ بھلا کر خوش ہو جاتا ہوں تو وہ عرش کا رب کس قدر اپنے بندے پر مہربان ہو گا جب وہ اس کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ کو اسی رجاء اور امید سے یہ پکارنا چاہیے کہ وہ ہماری ضرور سنے گا اور ہماری خطاؤں اور تقصیروں سے صرف نظر بھی کرے گا۔

رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا ” جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں ، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ۔ “
(صحیح بخاری، حدیث : 3194)

اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم پر دلالت کرتا ایک اور واقعہ حدیث میں بایں الفاظ وارد ہوا ہے۔
گزشتہ امتوں میں ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے خوب دولت دی تھی۔سا جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا میں تمہارے حق میں کیسا باپ ثابت ہوا؟ بیٹوں نے کہا کہ آپ ہمارے بہترین باپ تھے۔ اس شخص نے کہا لیکن میں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اس لیے جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، پھر میری ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور ( راکھ کو ) کسی سخت آندھی کے دن ہوا میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ پاک نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ پروردگار تیرے ہی خوف سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی۔ اس حدیث کو معاذ عنبری نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
(صحیح بخاری، حدیث : 3478)

تو آئیے اپنے کل کے نقصان کا ازالہ آج ہی کر لیں کہ یہ دن بھی گزر گیا تو حسرتوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

Leave a reply