میں چھوٹا تھا مگر سر پہ کئی صدیوں کا سایہ تھا

0
63
saadullah shah

بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں
میں چھوٹا تھا مگر سر پہ کئی صدیوں کا سایہ تھا

سعداللہ شاہ

تاریخ پیدائش: 28 اگست

ممتاز شاعر سعداللہ شاہ 28 اگست 1958 کو چشتیاں میں پیدا ہوئے۔ سعداللہ شاہ کا شمار عصرِ حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ سعداللہ شاہ نے اُردو، پنچابی اور انگریزی تین زبانوں میں شاعری کی۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی ادب کے اُستاد اور معروف کالم نگار بھی ہیں۔ سعداللہ شاہ کے 25 سے زائد شعری مجموعے شائع ہو کر پزیرائی کی سند حاصل کر چکے ہیں۔اُن کے شعری مجموعوں "تمھی ملتے تو اچھا تھا” ، "اک کمی سی رہ گئی” ، ” مجھے کچھ اور کہنا تھا” ، ” نیلے پھولوں کی بارش میں ” اور ” کتنی اُداس شام ہے” کے درجنوں ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ سعداللہ شاہ زندگی کے شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں بے کار فلسفوں کے بہ جائے زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ نمایاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے اشعار خواص و عوام میں یکساں مقبول ہیں۔ جہاں خواب، محبت اور اُداسی اُن کی شاعری کی نمایاں علامات ہیں وہیں مزاحمتی شاعری بھی اُن کا ایک حوالہ ہے۔ سعداللہ شاہ کے بے شمار اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں اور یہی وصف اُنھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتا ہے۔

منتخب اشعار

اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے
مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا

بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں
مَیں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا

لوگ فہم و آگہی میں دُور تک جاتے مگر
اے جمالِ یار تُو نے راستے میں دھر لیا

مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں
ہائے بچپن کا زمانہ وہ اُدھوری باتیں

کتنا نازک ہے وہ پری پیکر
جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے

بحرِ رجز میں ہوں نہ مَیں بحرِ رمل میں ہوں
مَیں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں

مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو

جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے
ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا

تُو نہ رسوا ہو اِس لیے ہم نے
اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا

کہنے کو اک الف تھا مگر اب کُھلا کہ وہ
پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ

اے مرے دوست ذرا دیکھ مَیں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ

رنجشِ کارِ زیاں ، دربدری ، تنہائی
اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے
خواب ہو جاتے ہیں اِس شہر میں آنے والے

عمر گزری ہے دربدر اپنی
ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے

دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے
ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے

مجھ کو میری ہی اُداسی سے نکالے کوئی
مَیں محبت ہوں، محبت کو بچا لے کوئی

پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

کوئی پلکوں پہ لے کر وفا کے دیے
دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لیے

پھر چشمِ نیم وا سے ترا خواب دیکھنا
اور اُس کے بعد خود کو تہِ آب دیکھنا

کتنا دشوار ہے ہر اک سے فسانہ کہنا
کس قدر سہل ہے کہہ دینا کہ حال اچھا ہے

مت شکایت کرو زمانے کی
یہ علامت ہے ہار جانے کی

وہ یہ کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو
جس نے منصف کو بھی سولی پہ چڑھا رکھا ہے

خود مصنف نے اُسے لا کے کہیں مار دیا
ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا

اُس کی خاطر سوچنا، سوچنا بھی رات دن
پھر بھی مجھ کو یوں لگا مَیں نے سوچا کچھ نہیں

تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال
جس کو چھوتی ہے اُسے خواب بنا دیتی ہے

بے ربط کر کے رکھ دیے اُس نے حواس بھی
جتنا وہ دُور لگتا ہے اُتنا ہے پاس بھی

خودی کو سعد کسی مرتبے پہ لا کہ جہاں
ادائے ناز قیام و قعود ڈھونڈتی ہے

کون سمجھے مرا تنہا ہونا
یہ ہے دنیا سے شناسا ہونا

جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمھی کو ہم نے چاہا تھا تمھی ملتے تو اچھا تھا

Leave a reply